لاہور (احمد جمال نظامی سے) چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی جس وقت دورہ چین پر تھے وزیراعظم کی طرف سے چینی میڈیا کو مدعو کرکے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر مجاز اتھارٹی کے بغیر سپریم کورٹ میں جوابات داخل کروانے کے عمل کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دینے پر آئی ایس پی آر کے ردعمل کہ ”یہ الزامات سنگین ہیں اور ان کے گہرے اثرات ہوں گے“کے بعد فوج اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی سنگین ہو چکی ہے اور حالات خاصے حساس محسوس کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت جبکہ وزیراعظم نے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کو برطرف کر دیا ہے اور آرمی چیف نے پرنسپل سٹاف آفیسرز کی کانفرنس آج طلب کر لی ہے۔ ملک بھر میں افواہوں کا کارخانہ تیزی کے ساتھ کام کر رہا ہے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ آئندہ کا حکومتی سیٹ اپ کیا ہو گا کیونکہ حکومت کا اپنا وطیرہ ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت سیاسی شہید بننا چاہتی ہے اور اسے جمہوریت سے بھی کوئی غرض نہیں رہی۔ اس جستجو میں حکمران جان بوجھ کر فوج اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کر رہے ہیں، اس حکومتی محاذ آرائی میں حالات حد سے زیادہ سنگین ہو چکے ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بھی اقدام اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ضروری ہو چکا ہے کہ فوج کو کسی بھی ایکشن سے باز رکھنے کیلئے سپریم کورٹ فوری طور پر میمو گیٹ کیس پر فیصلہ سنائے اور این آر او عملدرآمد کیس میں حکومت کو دی گئی مہلت پر نظرثانی کرے کیونکہ 16جنوری تک تو نہ جانے کیا ہو جائے۔ اگر اس وقت سول سوسائٹی کا کوئی ممبر یا پھر کوئی وکیل عدالت کے روبرو چلا جائے تو وہ بھی اس نقطے پر سوموٹو ایکشن لے سکتی ہے کہ نعیم خالد لودھی چونکہ عدالت میں سیکرٹری ڈیفنس کی حیثیت سے بیان دے چکے ہیں۔ یہ بات خود نعیم خالد لودھی بھی کہہ سکتے ہیں لہٰذا عدالت ان کی برطرفی کو موخر کرے۔ ایسا ہونے سے جب تک کیس ختم نہیں ہو گا، فوج کوئی ایکشن نہیں لے گی اور اسے کسی قسم کے ایکشن سے روکا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ نے جو چھ آپشنز تجویز کئے تھے ان میں سے کمشن مقرر کرنے کی تجویز پر اگر عملدرآمد کرتے ہوئے کمشن مقرر کیا جاتا ہے تو جس طرح سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 189اور 190کے تحت تمام ادارے عدالت کو معاونت فراہم کرنے کے پابند ہیں، اس کمشن میں بطور ممبر یا چیئرمین کی حیثیت سے آرمی چیف کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اور فوج اس وقت جس تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کا کاﺅنٹر کر رہے ہیں، عدالت کی طرف سے 16جنوری کی دی گئی تاریخ بہت دور ہے۔ ضروری ہے کہ عدالت عظمیٰ کسی نہ کسی آپشن کو زیرغور لے آئے تاکہ فوج کو کسی ایکشن سے روکا جا سکے، وہ ایکشن جو خود حکومت چاہتی ہے۔ سیکرٹری دفاع کی برطرفی پر سپریم کورٹ نوٹس لے سکتی ہے کہ اس کے ذریعے آرمی چیف وغیرہ نے عدالت میں جوابات داخل کروائے، جب تک میمو کیس ختم نہیں ہوتا ان کو برطرف نہیں کیا جا سکتا تاہم سیاسی مبصرین کی یہ آراءبھی سامنے آئی ہےں کہ اگر حکومت محاذ آرائیوں سے باز نہ رہی تو اے این پی، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم بھی حکومتی اتحاد میں شامل نہیں رہیں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کے آج اجلاس میں ہو سکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو ڈرانے کیلئے اور معزز ججز پر پریشر ڈالنے کی غرض سے ایسی قرارداد لائی جائے کہ صدر اور وزیراعظم کے خلاف اگر کوئی ایکشن لے تو اس پر آرٹیکل 6کا اطلاق ہو۔ اگر یہ حقیقت ہے تو حکومت کو چاہئے ہوش کے ناخن لے کیونکہ اس طرح سے مزید کشیدگی پھیلے گی، حکومت جان لے کہ اس کے ایسے حربے مارشل لاءکو دعوت دے رہے ہیں۔ جس سے فوج بچ رہی ہے اور یہ ملک کیلئے اچھا شگون نہیں۔ حکومت فوج اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کرکے جمہوریت کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ حکومت کیونکہ چار سالوں تک عوام کو کچھ ڈلیور نہیں کر سکی، اس لئے جمہوریت کے ساتھ گھناﺅنا کھیل، کھیل رہی ہے۔