قاضی حسین احمد، عزیز از جان .... (آخری قسط)

Jan 12, 2013

ڈاکٹر حسین احمدپراچہ


عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے حضرات قاضی حسین احمد کیساتھ ایک قلبی، روحانی اور ذاتی رشتہ محسوس کرتے تھے۔ فلسطین سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالحمید قضاة نے مجھے بتایا کہ قاضی صاحب نہایت شفیق اور نفیس شخصیت ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ صرف قاضی ہیں اور میں قضاة ہوں یعنی قاضیوں کا قاضی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے گلے لگا لیا۔ قاضی صاحب کی شخصیت میں قوس قزح کے سارے رنگ یکجا ہو گئے تھے۔ وہ بیک وقت مبلغ بھی تھے اور مفکر بھی وہ خطیب بھی تھے اور ادیب بھی وہ معلم بھی تھے اور مجاہد بھی وہ عالم بھی تھے اور داعی بھی گذشتہ تین چار برس سے انہوں نے باقاعدہ کالم نویسی شروع کر دی تھی۔ ان کا کالم بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ قاضی صاحب کی ایک بڑی منفرد خوبی نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ وہ یہ کہ انکی سوچ جامد نہیں متحرک تھی۔ تحریک اسلامی قبول عام کے مقام پر لے جانے کیلئے نت نئے خیالات انکے قلب و ذہن کو منور کرتے رہتے تھے قاضی صاحب ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں ذرا دیر نہ لگاتے تھے۔ قاضی صاحب کی متنوع، جامع اور کثیرالجہات شخصیت کو علامہ اقبالؒ کے ایک مصرعے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔....ع
عرب کا حسن طبیعت عجم کا سوز دروں
قاضی حسین احمد صاحب نے 2008ءکے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تو میں نے اگلے روز ہی کالم لکھا جس کا عنوان تھا ”نو بائیکاٹ“ کالم کی کاٹ کچھ ایسی تھی کہ جسے قاضی صاحب نے بھی محسوس فرمایا۔ انہوں نے مجھ سے براہ راست شکوہ کیا۔ یہ میرے ساتھ ان کی اپنائیت اور محبت کا ایک ثبوت تھا۔ وہ میرے خلیق و شفیق بزرگ تھے۔ شوہ کیا سرزنش کرنا بھی ان کا حق تھا۔ تاہم اس شکوے کے بعد انہوں نے اس بات کو کبھی نہ دہرایا اور مجھے ان کی طرف سے پہلے والی نوازش اور شفقت حاصل رہی۔ مولانا مودودی، قاضی حسین احمد کے دینی و سیاسی رہنما تھے جبکہ علامہ اقبال ان کے روحانی مرشد تھے۔ قاضی صاحب کو فارسی اور اردو کلام اقبال کا بہت بڑا حصہ ازبر تھا اور وہ اقبال کے اشعار کو بڑے جذبے و سوز کے ساتھ پڑھتے اور مجلس اقبال کی محفلوں میں اقبال کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے نوجوانوں کو کلام اقبال پڑھنے اور سمجھنے کی ترغیب دیتے۔ ان مجالس یں ان کے پرسوز انداز میں پڑھے ہوئے اشعار آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں....
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
قاضی صاحب کی وفات سے صرف دو ہفتے قبل منصورہ لاہور ان سے ون ٹو ون طویل ملاقات ہوئی۔ مہمان نوازی کا ان کے ہاں بڑا دلفریب انداز تھا چائے اور دیگر لوازمات سے پہلے زمزم اور مدینہ منورہ کی کھجوریں پیش کی گئیں۔ قاضی صاحب نے ملکی سیاست کا بڑا حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کیا۔ وہ ایم ایم اے کی بحالی اور دینی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد کے خواہاں تھے۔ وہ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) کے انتخابی اتحاد کے خواہاں بھی تھے۔ قاضی حسین احمد کی جامع اور پرکشش شخصیت جماعت اسلامی کے لئے بہت بڑا اثاثہ ہے۔ یہ صدقہ جاریہ جاری و ساری رہنا چاہئے۔ شاید بہت کم، لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا مودودی اوائل شباب میں شعر بھی کہتے تھے کچھ اشعار تو لگتا ہے انہوں نے قاضی صاحب کے لئے کہے تھے....
ارباب محبت کا ڈھنگ سب سے نرالا
اک آن میں دیوانہ ایک آن میں فرزانہ
اک قطرہ سے عالم میں طوفان بپا کر دے
ایک جرعہ سے پیدا کر میخانہ کا میخانہ
آتش ہے نہاں تجھ میں پھر شمع کی کیا حاجت
خود شعلہ تاباں بن، اے سوزش پروانہ
فی الواقع قاضی صاحب شعلہ تاباں تھے اور عزیز از جان تھے۔

مزیدخبریں