متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ ”الطاف بھائی کا نیا انکشاف“

Jan 12, 2013

ڈاکٹر ایم اے صوفی

10جنوری 2013ءبروز جمعرات کو لندن میں الطاف بھائی نے ڈراﺅن حملہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر کیا ہے اور الزام لگایا کہ انہوں نے برطانیہ کے شہنشاہ سے وفاداری کا بطور گورنر جنرل کے عہدہ کا حلف اٹھایا تھا۔ پاکستان کے ہر فرد کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ الطاف بھائی نے ماضی میں بھی قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر الزام لگایا تھا کہ وہ سیکولر تھے۔ ان کے مذہبی جذبات کوبھی مجروح کیا۔
الطاف بھائی نے اپنی شہریت کئی سالوں سے لندن میں اختیار کر رکھی ہے اور اس ملک کے قانون کے مطابق حلف بھی اٹھایا ہے اور ہر ایک شہری کو اسی قانون پر عمل کرنا ہوتا ہے کہ ”حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ میں اس ملک کے آئین پر عمل کروں گا اور اس کی حفاظت بھی کروں گا اور میرا ہر عمل اس کے قانون کے مطابق ہو گا۔ اگر اس ملک پر کوئی حملہ ہوا تو حفاظت کروں گا اور بادشاہت کا تابعدار رہوں گا“۔ اسی قسم کا حلف نامہ امریکہ میں بھی لیا جاتا ہے۔ اسی قسم کا تحریری معاہدہ کینیڈا کی شہریت کے لیے ہوتا ہے۔
3جون 1947 ءتقسیم ہند پلان کے مطابق ہندوستان کی دونوں ڈومین میں تقسیم ہو گئی۔ یعنی ہندوستان دو حصوں میں پاکستان اور بھارت میں بٹ گیا۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریز کی حکومت تھی۔ دو قومی نظریہ کے تحت آل انڈیا مسلم لیگ زیر قیادت حضرت قائد اعظم طویل جدوجہد کے بعد انگریز کو تقسیم ہند پر راضی کیا۔ عوام کا دباﺅ تھا اور 1946ءکے الیکشن میں مسلمانوں نے ووٹ مسلم لیگ کو دیئے تھے۔ چٹاگانگ، بلوچستان اور سرحد میں ریفرنڈم ہوا۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن وائس رائے ہند اس لیے تعینات کئے گئے تھے کہ ہندوستان کی تقسیم رک سکے۔ سول نافرمانی کی تحریک مسلم لیگ نے چلائی۔ ہم خود اس میں شامل تھے کانگریس اور انگریز لارڈ ماﺅنٹ بیٹن وائس رائے ہند کی خواہش تھی کہ پاکستان ڈومین کا بھی بھارت کی طرز پر گورنر جنرل مقرر کیا جائے۔ مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ ہم آزاد ہوئے۔ آزاد ملک کا اپنا گورنر جنرل ہو گا۔ مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کا نام پیش کیا۔ پھر لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کہا کہ دونوں پاکستان اور بھارت ڈومین کامن ویلتھ کا حصہ رہے گا۔ اپنے اپنے جھنڈے میں برطانیہ کے جھنڈے کی جگہ رکھیں۔ مسلم لیگ کی میٹنگ ہوئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح موجود تھے۔ لیاقت علی خان سردار عبدالرب نشتر نے اس کو قبول نہیں کیا اور اپنا جھنڈا تیار کیا اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی بات نہ مانی گئی۔
پاکستان کے گورنر جنرل نے حلف وفاداری کے موقع پر 14اگست 1947ءکراچی میں جب لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کہا: مسٹر جناح مجھے امید ہے کہ آپ کی حکومت اقلیت کا اس طرح خیال کرے گی جس طرح اکبر بادشاہ کیا کرتے تھے۔ گرمی کا موسم تھا اور لوگوں کا ہجوم تھا۔ قائد اعظم کا وزن 75پاﺅنڈ علالت اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کہا: کہ میرے پاس پولیس کی رپورٹ آئی ہے کہ آپ کو قتل کیا جائے گا۔ یہ تقریب باہر نہ کریں۔ قائد اعظم نے جواب دیا کہ تقریب اوپن ہونی ہے۔ یہ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور کہا اکبر کون ہوتا ہے۔ 1300سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور پھر 11اگست کو آئین ساز اسمبلی کی تقریر میں واضح ہے۔ یہ میثاق مدینہ کی مثال ہے اور اسلامی اصولوں کو اپنایا جائے گا۔
قائد اعظم محمد علی جناح صدر آئین ساز اسمبلی پر تعجب کرتے ہیں کہ پاکستان میں شریعت نافذ ہو گی۔ یہ لوگ بدگمانی پیدا کر رہے ہیں۔ یوم پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دن تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسلامی قانون ہو گا۔ آپ نے زور دے کر کہا: کہ اسلام کے اصولوں کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا جو ہمارے پیغمبر نے 1300 سال پہلے دیئے تھے اور کہا: میں نے لنکن اِن میں داخلہ لیا تھا کہ ”محمد“ اسم گرامی دنیا کے قانون دانوں میں اوّل ہے۔
”اسلام محض رسوم، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں، اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطہ حیات بھی ہے جس کے مطابق وہ اپنے روز مرہ زندگی، اپنے افعال و اعمال حتیٰ کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب انسانوں کے لیے انصاف، رواداری، شرافت، دیانت اور عزت کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ صرف ایک خدا کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اسلام میں انسان انسان میں کوئی فرق نہیں ہے مساوات، آزادی اور اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں“۔
(قائد اعظم محمد علی جناح کا کراچی بار ایسوسی ایشن 25جنوری1948ئ)
محمد علی جناح پہلی بار میٹرک کرکے تعلیم کے لیے لندن 1863ءمیں گئے۔ چھوٹی عمر میں بار ایٹ لاءکیا اور واپس ہندوستان آئے۔ بمبئی میں لاءکی پریکٹس کی۔ پھر راﺅنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کی۔ کچھ دیر کے لیے ہندوستان کے حالات سے مایوس ہو کر لندن میں ٹھہر گئے۔ علامہ اقبال، بیگم و لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح کے مشورہ سے واپس 1934ءمیں آ گئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی۔ وہ لندن میں رہائش پذیر نہیں ہوئے، نہ ہی انہوں نے الطاف بھائی والا انگریز سرکار کے حلف نامہ پر دستخط کیے۔ ان کا کردار مثالی تھا، ساری قوم پر ان کا احسان ہے کہ ہمیں آزادی کی نعمت سے نوازا اور آج آزاد ملک میں متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین وزارتوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جناح صاحب کی نگاہ حیرت انگیز بلند تھی۔ وہ دیکھنے میں نحیف تھے، بیمار تھے، کمزور بھی، باطن قوتوں سے مقصد حاصل کر لیا۔ مسٹر جناح نے مسٹر جسٹس عبدالرشید چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے حلف گورنر جنرل پاکستان کا لیا۔ اسلامی قواعد کے مطابق ہوا۔ تلاوت ہوئی اور حلف اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوا۔
لندن میں ایک تاریخی واقعہ:
شاہ انگلستان جارج ششم کے زمانے میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ مزید اصطلاحات کے لیے لندن گئے تھے۔ مذاکرات جاری تھے۔ قصر بیگھنگم سے جناح کو دعوت موصول ہوئی۔ یہ دعوت جو عزت کا موجب ہوتی ہے۔ قائد اعظم نے شمولیت کرنے سے انکار کر دیا کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے اس مہینے میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، الطاف بھائی لندن والے کے الزام کو غلط قرار دیا ہے۔ مضمون میں کہا اس وقت حلف وفاداری کا قانون ایسا تھا اور ہندوستان کی تقسیم ”ڈومین “ میں ہوئی تھی۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کامن ویلتھ کا حصہ تھے اور ابھی تک آزاد ملک نہ ہوا تھا۔ اسی وجہ سے قائد اعظم گورنر جنرل ہوئے اور گورنر جنرل برٹش حکومت کا ہوتا ہے اور بھارت کے گورنر جنرل اور پاکستان کے گورنر جنرل نے حلف اس قاعدہ کے تحت لیے تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے کہا 1947ءسے پہلے متحدہ ہندوستان پر برطانیہ کی حکومت تھی اور برطانیہ ہی اپنے باشندوں کو پاسپورٹ ایشو کرتی تھی۔ حکومت برطانیہ کو اتھارٹی حاصل تھی۔ اس پاسپورٹ سے شہریت نہیں آ سکتی تھی وہ ذریعہ سفر کرنے کا تھا۔ قائد اعظم نے جتنے بھی سفر کیے طالب علمی کے زمانہ میں کیے یا وکالت کے لیے کئے، ان کے پاس برطانیہ کی شہریت نہ تھی۔
آفاق احمد MQM نے بھی الطاف بھائی کی بیان کی مذمت کی اور کہا 1947ءمیں جب قائد اعظم نے حلف اٹھایا پاکستان کا اس وقت کوئی اپنا آئین نہ تھا۔ سردار لطیف خان کھوسہ سابق گورنر پنجاب، مسلم لیگ (ن) کے سپوکس مین ڈاکٹر آصف سعید کرمانی، ظفر اقبال جھگڑا مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری، بیرسٹر ظفر علی شاہ، سینیٹر طارق عظیم اور ایاز پلیچو نے بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ لیڈر پاکستان کے نظریہ پر ڈراﺅن حملہ کیا۔
”بہت کم شخصیات تاریخ کے دھارے کو قابل ذکر انداز سے موڑتی ہیں۔ اس سے بھی کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جسے ایک قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔ قائد اعظم نے یہ تینوں کام کر دکھائے“۔ (سٹینلے والبرٹ)

مزیدخبریں