سیانوں کا قول ہے کہ مُنہ سے نکلی بات پرائی ہو جاتی ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’پہلے تولو پھربولو‘‘ ۔ کسی بھی ملک میں اس کے لیڈر کی طرف سے دئیے گئے بیانات مقامی اور بین الاقوامی سطح پر دور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اسی لیے ایک اچھا سیاستدان اور رہنما نپے تلے انداز میں صرف وہی بیان دیتا ہے جس میں وزن ہو۔ اس کی بے نظیر مثال بابا قوم کی تقاریر اور بیانات ہیں۔ جو ہمارے لیڈز کے لیے مثل راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن آج جب ہم اپنے لیڈز کے بیانات سنتے ہیں تو ہمیں بے حد مایوسی ہوتی ہے۔ پچھلی حکومت میں وزیر داخلہ جناب رحمان ملک اور پنجاب کے وزیر قانون جناب ثناء اللہ کے بیانات سن کر ہمیں اپنی لیڈز کے معیار اور دہنی ناپختگی پر بہت افسوس ہوتا تھا
موجودہ حکومت کے حوالے سے بھی حالات مختلف نہیں۔ اس زمن میں وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اور وزیر داخلہ نثار علی خان سرفہرست ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کو بہت زیادہ بولنے کا شوق ہے اُن کے جذباتی اور غیر داشورانہ بیانات میں بہت تضاد پایا جاتا ہے جس سے ملک کو نقصان ہوتا ہے ۔ پچھلے دنوں جناب اسحاق ڈار نے ایک بیان میں عوام کو مشورہ دیا کہ فوراً اپنے ڈالر بیچ دیں کیونکہ وہ بہت ارزان ہونے والا ہے۔ انہوں نے یہ بیان دیتے وقت ملک کے ذر مبادلہ ذخائر کی زبوں حالی کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ اسی طرح وزیر داخلہ نے پاک امریکہ تعلقات اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لیڈر کو پھانسی دئیے جانے پر اسمبلی میں لمبے لمبے بیانات دئیے جبکہ یہ معاملات خارجہ تعلقات کے زمن میں آتے ہیں اور اس سے وزیر داخلہ کاکوئی تعلق نہیں۔ اسی لیے دفتر خارجہ نے اِسے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ وزیر داخلہ کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر ضروری بیانات کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح تحریک طالبان کے حکیم اللہ محسودکے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بارے میں وزیر داخلہ نے امریکی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ اپنے جوش خطابت میں یہ بالکل بھول گئے کو خود ہماری حکومت نے 2009 میں حکیم اللہ محسود کی زندہ گرفتاری یاہلاکت پر 50 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا تھا۔ یہ وزیر داخلہ کے امریکہ کے خلاف بیانات کا نتیجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے نیٹو کی رسد کو بلند کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جس سے امریکہ کی طرف سے کولیش سپورٹ فوڈ کے بند ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور ہم نے نیٹو کے 28 ممالک سے اپنے تعلقات دائو پر لگا دئیے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی وزیر داخلہ نے ملک کے خارجہ تعلقات کے مشیر کو ہنگو پر ڈرون حملے کے بعد تصحیک اور مزاح کا نشانہ بنایا اس حملے میں حقانی نیٹ ورک کے 3 دہشت گرد اورمزید 6افراد مارے گئے۔ جہاں تک طالبان سے امن مذاکرات کا تعلق ہے تو انہوں نے ہماری امن کی پیشکش کا جواب شمالی وزیرستان میں جیک پوسٹ پر حملے سے دیا جس میں ایک بارود سے بھر ا ہوا ٹرک استعمال کیا گیا اس دھماکے میں 5 اہل کار شہید اور 40 زخمی ہوئے۔ اس کے بعد بھی وہا ں پر گمسان کی جنگ جاری رہی اور دو دونوں میں50اور افراد جاں بحق ہو گئے۔ لیکن دہشت گردوں سے امن مذاکرات کی باتیں کرنے والے وزیر داخلہ نے ان تمام واقعات کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
ملکی معشیت کی زبوں حالی اور ملکی زر مبادلہ کی شدید کمی کے پیش نظر ہم چوہدری نثار کے ان جذباتی ادرے محل بیانات سے امریکی دشمنی مول نہیں لے سکتے کیونکہ ہمیں ڈالر درکار ہیں جو ہماری مجبوری ہے ۔ اگرہمیں ایک خود دار اور زندہ قوم کی طرح جینا ہے تو ہمیں اپنے وسائل پر انحصار کر نے اور اپنی معشیت کو مضبوط کرنا پڑے گا۔ کیونکہ مثل مشہور ہے کہBeggars are no choosers
قارئین! لیڈر کے زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ عوام کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے ایک اچھا رہنما ہر بات سوچ سمجھ کر کرتا ہے لیکن ہمارے لیڈز بولتے پہلے اور سوچتے بعد میں ہیں اسی لیے اُن کے بیانات سے ملک کو نا تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔ چوہدری نثار اور اسحاق ڈار جیسے لوگوں کی موجودگی میں جناب نواز شریف کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں اُن کے بے تکے اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے بے انتہا شک و شبہات اور ابہام پید ا ہوتے ہیں۔