لاہور (نیوز رپورٹر + ساجد ضیا / دی نیشن رپورٹ + نیٹ نیوز) سابق صدر پرویز مشرف کو ہسپتال سے وڈیو لنک کے ذریعے سابق فوجیوں کے اجلاس کو خطاب کی اجازت نہیں ملی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق انہیں گلبرگ لاہور کے ایک ہوٹل میں سابق فوجی افسروں اور وکلا سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنا تھا۔ تقریب سج گئی تھی، مہمان سیٹوں پر براجمان ہو گئے تھے، سبھی منتظر تھے لیکن عین وقت پر اطلاع ملی کہ ہسپتال انتظامیہ نے پرویز مشرف کو خطاب کی اجازت نہیں دی۔ بعض دیگر اطلاعات کے مطابق مشرف کا خطاب ریکارڈ کر لیا گیا تھا مگر آن ائر نہ ہو سکا۔ جنرل سے لے کر میجر رینک کے افسر سمیت 500 کے قریب سابق فوجی پرویز مشرف کی حمایت میں اکٹھے ہوئے۔ انہوں نے سابق صدر کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور ان کے تحفظ کے لئے مسلسل تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں مشرف کے ٹرائل کے خلاف اکٹھے ہونے کا بھی فیصلہ کیا۔ اس اجلاس کا اہتمام پرویز مشرف کے ساتھی اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر راشد قریشی نے ’’پاکستان فرسٹ‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس موقع پر پرویز مشرف کو غدار قرار دینے پر تشویش کا اظہارکیا اور کہا سول عدالت کے ذریعے ان پر مقدمہ چلانا اور ان سے یہ حالیہ سلوک ملکی سرحدوں کے محافظ کے لئے مناسب اور مثبت نہیں۔ مقررین نے اسے حکومت کی انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا۔ اجلاس میں 3 سٹار اور ٹو سٹار سابق جرنیل شریک تھے۔ ان میں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول، سابق نیوی چیف شاہد کریم اللہ، اسرار گھمن، افضل مظفر، ارشد محمود، سجاد اکرم، ظفر حیات، محمد علی، شاہد حامد، باجوہ سرفراز، سکندر، آئی بی کے سابق ڈی جی اعجاز شاہ، جاوید اسلم اور ایاز امیر موجود تھے۔ غداری کے مقدمے میں ملزم پرویز مشرف کے کیس میں وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ وزیراعظم اور سابق چیف جسٹس نے انتقام لینے کیلئے سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت قائم کی۔ کیس میں ریاست نہیں، وزیراعظم نوازشریف مدعی ہیں۔ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ پراسیکیوٹر بھی جانبدار ہیں جو میڈیا کے سامنے ان کے موکل کو پھانسی پر چڑھانے کے بیانات دے رہے ہیں۔ وہ پاکستان فرسٹ تنظیم کے زیراہتمام سابق فوجیوں سے خطاب کے بعد سوالوں کے جوابات دے رہے تھے۔ ڈاکٹر خالد رانجھا نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا وہ چودھری شجاعت کی اس تجویز کا احترام کرتے ہیں کہ اس کیس کو کھولا گیا تو اس میں بہت سے نام آئیں گے۔ پرویز مشرف کے اقدامات کو پارلیمنٹ اور عدلیہ تحفظ دے چکی ہے۔ ایمرجنسی لگاتے وقت انہوں نے اس وقت کے حکومتی اہلکاروں اور کور کمانڈرز سے مشاورت کی تھی۔ آرمی ایکٹ کے مطابق کسی بھی فوجی افسر کیخلاف ریٹائرمنٹ کے بعد مقدمہ فوجی عدالت میں ہی چلایا جا سکتا ہے۔ ملک کا قانون اور آئین بہت عزیز اور قابل احترام ہے، قانون کا عملدرآمد ہر جگہ پر ہونا چاہئے۔ پرویز مشرف کیخلاف مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے، اس کیس کے بارے میں جی ایچ کیو کو آگاہ رکھا جائے۔ پرویز مشرف کے بارے ایسے تاثرات نہ دئیے جائیں جن سے سیاچن پر بیٹھے ہمارے جوانوں کی حوصلہ شکنی ہو‘ کسی بھی جگہ غدار کا لفظ استعمال نہ کیا جائے‘ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو کہا کہ میں نے مارشل لا کو دفن کردیا ہے مگر ضیاء الحق نے پھر مارشل لا نافذ کردیا۔ 12 اکتوبر 1999ء کے عمل کو پارلیمنٹ نے تحفظ دیا ہے، اس کیس میں کہیں حکومت نہیں۔ ایک جگہ وزیراعظم اور دوسری جگہ اس وقت کے چیف جسٹس ہیں، عدلیہ کا غلط استعمال کرکے جو انصاف لیا جاتا ہے وہ سب سے بڑی ناانصافی ہوتی ہے۔ اس کیس پر کہیں کابینہ اور صدر سے مشاورت نہیں کی گئی، نومبر 2007ء سے اب تک چار حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں اب جس فورم پر پرویز مشرف کا کیس زیرسماعت ہے وہ فورم سابق چیف جسٹس نے بنایا ہے، جب فورم ٹھیک نہیں ہوگا تو ثالثی بھی ٹھیک نہیں ہوگی۔ سابق نیول چیف شاہد کریم اللہ نے کہا کہ ریٹائرڈ فوجی افسر پرویز مشرف کے معاملے پر سعودی عرب پر دبائو ڈالیں اور سوشل میڈیا پر مہم چلائی جائے، اسکے ساتھ حکومت پر بھی دباؤ ڈالا جائے کہ پرویز مشرف کا معاملہ فوجی عدالت میں چلایا جائے۔ این این آئی کے مطابق خالد رانجھا نے کہا کہ پرویز مشرف کا مقدمہ سول کورٹ میں نہیں چل سکتا جی ایچ کیو اس کیس کو چلائے، ملک اور آئین سب سے زیادہ عزیز ہیں، مشرف دور میں ان سے فائدے حاصل کرنیوالوں کو چاہئے کہ آج وہ انکے ساتھ کھڑے ہوں۔ پرویز مشرف کے کیس میں کہیں ریاست نہیں۔ ایک جگہ وزیراعظم اور دوسری جگہ اس وقت کے چیف جسٹس ہیں، عدلیہ کا غلط استعمال کرکے جو انصاف لیا جاتا ہے وہ سب سے بڑی ناانصافی ہوتی ہے۔ وفاقی حکومت آئین کا آرٹیکل 6 استعمال کرسکتی ہے مگر اس کیس میں وزیراعظم فریق ہیں، اس کیس پر کہیں کابینہ اور صدر سے مشاورت نہیں کی گئی۔ جب پرویز مشرف نے ٹیک اوور کیا تو وہ فوجی وردی میں تھے، انکا کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے تاکہ ملزم کو یقین ہو کہ اس سے انصاف ہوگا۔ پرویز مشرف کیخلاف ذاتی اور انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے، آزادانہ عدالتی کارروائی سے ہی انصاف ممکن ہے۔ آج تک کسی فوجی کا سول کورٹ میں ٹرائل نہیں کیا گیا، ایمانداری سے کارروائی کی جائے تو پرویز مشرف ملزم نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پرویز مشرف کو معاف کردیا جائے بلکہ اس کیس کی پراسیکیوشن شفاف اور آزادانہ ہونی چاہئے۔ چودھری شجاعت نے اپنا اور پرویز الٰہی کا نام کیس میں درج کئے جانے کا مطالبہ کر کے بہت اچھا اقدام کیا۔ قبل ازیں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے جنرل (ر) راشد قریشی نے کہا کہ حکومت پرویز مشرف کیس کی کارروائی کا آغاز 3 نومبر کی بجائے 12 اکتوبر 1999ء سے کرے لیکن موجودہ حکومت ایسا ہر گز نہیں چاہتی کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اس میں سابق چیف جسٹس کا نام بھی آئیگا۔ بے بنیاد باتیں پھیلائی جارہی ہیں کہ مشرف کے ساتھ کوئی نہیں حالانکہ آج ہر فوجی انکے ساتھ ہے، فوجیوں کے دل میں آج بھی اتنی ہی عزت ہے جتنی انکے بطور چیف آف آرمی سٹاف تھی۔ پرویز مشرف کے دورمیں ملک میں خوشحالی آئی، مشرف نے مجھ سے ابھی تک کو ئی ایسی بات نہیں کی کہ وہ ملک سے باہر کب جا رہے ہیں، یہ فیصلہ ڈاکٹرز نے کرنا ہے، جب تک ڈاکٹر نہ کہیں میں نہیں بتا سکتا۔ حکومت تو طالبان سے آج مذاکرات کرنے کی بات کر رہی ہے، فوج یہ کام 15 سال پہلے کرچکی ہے لیکن دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انکاکوئی دین ایمان نہیں، یہ تو 15 منٹ میں اپنی بات سے مُکر جاتے ہیں۔