” مولا! تو ہی دوائے دل ناصبور دے“

پنڈی میں ”8افراد“ شہید کر دیئے گئے وزیر داخلہ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے، بلند حوصلہ کون لوگ ہیں پست ہمت کہاں ہیں؟ ان واقعات سے ہمارے کتنے حوصلے بلند ہوئے، ذرا جا کر ان والدین سے پوچھئے جو ”16دسمبر“ کو ایک گھنٹہ میں اپنی عمر سے 30سال آ گے بڑھا پے میں پہنچ گئے۔”27راتوں“ سے نیند سے محروم سوجی ہوئی آنکھیں ،زخمی دل بھی فریاد پر مجبور ہو کر بول پڑے کہ ابھی تک تحقیقات یا کسی گرفتاری سے آگاہ نہیں کیا گیا، ہمارے بچوں کا خون فروخت نہ کریں جوں جوں سکول کھلنے کی تاریخ قریب آ رہی ہے والدین کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے، حفاظتی انتظامات تسلی بخش نہ ہونے کی اطلاعات پر بچوں کو سکول بھیجنے یا نہ بھیجنے پر متذبذب ہیں دوسری طرف کراچی میں بد امنی عروج پر ہے شٹر ڈاﺅن ہڑتال ختم ہی نہیں ہو رہی،”یخ بستہ رات ، ہڈیوں کے گودے کو منجمد کر دینے والی سرد ہوائیں مگر پورا ”فرانس“ سڑکوں پر تھا” 14افراد“ کی نعشوں پر کھڑے ملک کے عوام” امن مارچ“ کر رہے تھے، ظاہر وثابت مسلم دشمن قوتوں کی کار ستانی کے باوجود ایسے واقعات تک صحیح اطلاعات تک رسائی سے محروم لوگوں کے اذہان مسموم ہو جاتے ہیں، عام شہریوں کی اقلیتی فرقہ کے خلاف ایک متحدہ سوچ مجتمع ہو جاتی ہے مگر نہ کسی نے ٹائر جلائے، نہ کسی نے ” اے ،ٹی،ایم“ مشین کو توڑ کر پیسے نکالے نہ کسی بینک کی ،عمارت کو نشانہ بنایا گیا.... گاڑیوں کے شیشے بھی نہیں ٹوٹے.... احتجاج کا انتہائی منظم پر سکون انداز، غم اور غصہ کی شدید کیفیت کے باوجود مسلم دشمنی کے رویے اور واقعات بہت سنگین نہیں ہوئے، ”اہل فرانس“ نے سرعت سے (چند دن بعد سہی) حملہ آور ملزمان کو ہلاک کر ڈالا ہے نہ عدالت لگی نہ کمیٹی کے اوپر ”20“ مزید کمیٹیوں کے لینٹر ڈالے گئے احتجاج کے ضمن میں ہمارا یہ حال ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی واقعہ رونما ہو جائے ہم اپنے ملک کی سڑکوں کو دھوئیں، آگ سے سیاہ کر دیتے ہیں، پوری دنیا پر حکومت کرنے اسلام کا جھنڈا لگانے کے پاگل پن جنون نے پاکستان کو آتش فشاں بنا دیا، سینکڑوں واقعات میں ہزاروں لوگ شہید ہو گئے کروڑوں مظلوم نہتے کشمیری بھارتی پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، مہینوں سے سرحدی علاقے انڈین فتور سے متاثر ہیں ڈھونڈنے سے بھی ایک مثال نہیں ملی کہ کسی عرب، اسلامی ملک میں ہلکا سا احتجاج بھی ہوا جلوس نکلا ہو، مذمتی قرار داد پاس ہوئی کسی تنظیم جماعت نے ہڑتال کی کال دی ہو ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ہاں جب ادھر زلزلے ،سیلاب (وہ بھی شدید)آتے ہیں تو ادھر سے وہ اپنی سال بھر کی زکوة ،خیرات ،صدقات میں سے کچھ رقم ہمیں عنایت ضرور کرتے ہیں جو ادھر سے جہاز پر لوڈ ہوتی اور ادھر بڑے پیٹ کے گوداموں میں لینڈ کر جاتی ہے، وہ لوگ با شعور ہیں اپنی اہلیت املاک بابت سمجھدار ہیں جبکہ چند گروہ فسادی عزائم کے ساتھ پوری مسلم کمیونٹی کے لئے مصائب کا شکار بن چکے ہیں، دنیا بھر میں ہماری مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں انہی رویوں باعث مذہب ،لباس ،شناخت میں سب کچھ ہی خطے میں پڑ گیا ہے، باقی دنیا میں مسلم آبادی کاروبار، سماجی ترقی کے لحاظ سے میسر مواقعوں میں بڑی کمی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں دشمن اتنی زک نہیں پہنچا سکا جتنی مسلمانوں کی زبان نے خود ” مسلم امہ“ کو پہنچائی ہے، بغیر سوچے، سمجھے بغیر تیاری کے ہمہ وقت للکارنے قذافی وصدام کے ذریعہ امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر دیا، ”دہشت گردی“کا مفہوم کیا ہے، پرانی ڈکشنری کھنگھال ڈالی ناکام رہی کیونکہ پرانی ڈکشنری کے چھپنے تک دنیا واقعی تشدد سے پاک تھی، نئی ڈکشنری کے مطابق سادہ الفاظ میں دھمکی، دباﺅ ، تشدد کے ذریعہ ایسی فضا بنانا کہ لوگوں میں ڈر، خوف ، سراسیمگی پیدا ہو جائے جیسا کہ ” پشاور سانحہ“ پیرس فائرنگ“ کے بعد لوگوں میں خوف بہت بڑھ چکا ہے، ذہنی و جسمانی ٹارچر کے متعدد واقعات اس طور پھیلانا کہ ریاست بھی ڈر کر انتہا پسندوں کی منشاءمرضی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا سکے حکومت سے من چاہے فیصلوں کا نفاذ، ایسا صرف منفی افعال سے ہی ممکن ہوتا ہے نہ آئینی ترامیم سے ریاستیں مضبوط ہوتی ہیں اور نہ ہی قوانین سازی سے حکومتیں ” مطلوبہ نتائج صرف رویے بدلنے سے حاصل کیے جا سکتے ہیں بار ہا لکھا کہ ” دہشت گرد“ سے زیادہ دہشت گردی کی وجوہات ، نرسریوں کو ختم کریں، فوجی عدالتوں کی صورت سارا بوجھ فوج پر آ گیا ہے دعا ہے کہ یہ عمل متنازعہ نہ ہونے پائے جس کا ازحدچانس ہے آئینی ترمیم بہت سارے پہلوﺅں سے قابل بحث ہے اصولاً اطلاق ہر اس فرد پر ہونا چاہئے جو عوام قانون کے رکھوالوں پر حملوں کا مرتکب ہو یہ جرم ریاست پر حملہ تصور کیا جائے، زیادہ اختلاف مدارس کی فنڈنگ اور نگرانی اور مذہبی بنیاد پر تنازعات، جرائم کے مقدمات چلانے کے خدشات سے پیدا ہوا ہے، اب ناکامی کی گنجائش نہیں پسپائی سے بچنے کے لئے قدامت پسند سوچ کے انسداد واسطے حکومت دینی و دنیاوی تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب ، یکساں یونیفارم کے مسئلہ کو ترجیحی بنیاد پر حل کرے.... تعلیمی اداروں کی 2.3فٹ دیواریں اونچی کرنے واک تھرو گیٹس لگانے سکیورٹی ایجنسیوں کی چھان بین جیسے مجوزہ اقدامات سیکنڈری نوعیت کے ہیں(78%سکولوں میں حفاظتی تدابیر نہیں اپنائی جا سکیں، سب اچھا کی روایتی ،بوگس رپورٹس پر ” وزیر اعلیٰ پنجاب“ مطمئن نہ ہو کر بیٹھے رہیں رول نمبرکا مسئلہ جہالت، غربت، ناانصافی ہے تعلیم کی فراہمی معاشی مساوات کا نفاذ ریاست کی ذمہ داری ہے، ہماری آبادی کا اکثریتی حصہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے، والدین اقتصادی بوجھ کے تحت تعلیم کے لئے مدارس کو ترجیح دیتے ہیں اب حکومت کا حال یہ ہے کہ عمارت کو بنکرز، قلعے بنا کر خود تو محفوظ ہو گئی مگر عوامی سکیورٹی پر کروڑوں کے خرچ صرف اعلانات تک محدود کئے ہوئے ہیں اوپر سے معاشی روز گار کے مواقع بڑھانے کی بجائے پیٹ پر ٹانگ مارنے سے باز نہیں آ رہی بجلی پر 3نئے ٹیکسوں کے علاوہ سٹیل، موبائل فون پر بھی لا تعداد ٹیکس عائد کر دیئے، یعنی نہ سکیورٹی دی اور نہ ہی ” روٹی“ کی مقدار بڑھانے پر توجہ فوکس کی گئی، تحفظ بھی نہ رہا، روٹی کا سائز بھی سکڑتا جا رہا ہے، پر سکون زندگی عوام کے لئے ایک سہانا خواب بنتی جا رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن