دنیا میں اس وقت بے شمار مذاہب اور عقائد تسلیم کیے جاتے ہیں اور ان مذاہب کے پیروکاروں اور عقائد کے ماننے والوں کی تعداد بلاشبہ لاکھوں اور کروڑوں میں ہے لیکن ہمارے سامنے جتنے بھی عقائد یا مذاہب زیر نظر ہو سکتے ہیں وہ سب شخصیات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودی کسی مذہب سے زیادہ ایک نسل کا نام ہے، جس طرح کوئی شخص اپنی نسل تبدیل نہیں کر سکتا، اُسی طرح کوئی شخص اگر نسلاً یہودی ہے تو ہی اُسے یہودی تسلیم کیا جاتاہے ورنہ کوئی شخص محض ”قول و اقرار“ سے یہودی نہیں بن سکتا۔ اسی طرح عیسائیت یا ”کرسچی اینیٹی“ اپنے نام سے ہی ظاہر ہے کہ حضرت عیسٰیؑ سے موسوم ہے۔ مذاہب سے ہٹ کر دیگر عقائد کا بھی یہی حال ہے، ہندومت سے لے کر سکھ مت تک اور جین مت سے لے کر بدھ مت تک، تمام عقائد بھی فردِ واحد کی شخصیت یا دی گئی تعلیم کے گرد ہی چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس اسلام واحد مذہب ہے جومحض شخصیت کے گرد نہیں گھومتا بلکہ ایک جانب اگر اسلام زندگی گزارنے کے طور طریقوں (یعنی دین) کا نام ہے تو دوسری جانب اسلام اسمِ بامُسمیٰ بھی ہے۔ یعنی اسلام نام ہی سلامتی اور امن کی ضمانت کا ہے، اگر امن اور سلامتی نہیں ہے تو سمجھیں کہ اسلام بھی نہیں ہے۔ اِس میں بھلا کوئی شک ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے؟ وہ جس دین کے ماننے والے مسلمان کہلاتے ہوں اور جو دین اپنی ہئیت اور وجود کے اعتبار سے ہی سلامتی اور امن سے منسلک ہو تو اس میںکوئی شک ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اسلام صرف اپنے ماننے والوں کیلئے ہی نہیں امن کا مذہب نہیں ہے بلکہ اسلام ہر کس و ناکس ، چھوٹے بڑے، امیر غریب، کالے گورے، خوبصورت بدصورت اور عجمی عربی سب کیلئے یکساں طور پر امن، سلامتی ، ترقی اور استحکام کا ضامن ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اس شدت کے ساتھ امن اور سلامتی کا درس دیا ہے کہ تخریب اور دہشت گردی کا سوچنا بھی گناہ ِکبیرہ معلوم ہوتا ہے۔ کیا اسلام ہی وہ مذہب نہیں جس میں ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا؟ یقیناً یہ طرہ امتیاز اسلام کا ہی ہے کہ یہ دین بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کی ظاہری اور باطنی زندگی کیسی ہونی چاہیے اور ایک مسلمان کو اپنوں اور غیروں کے ساتھ کیسے برتاو¿ کرنا چاہیے؟ اسلام میں اس کی تفصیل وضاحت، بلاغت، سلاست اور فصاحت کے ساتھ موجود ہے اور اس تفصیل کو قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے آسانی کے ساتھ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود عالم مغرب اور بھارت کے لادینی عناصر اور نام نہاد مہذب طبقات اِس ڈھٹائی کے ساتھ اسلام کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں کہ اُن کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگانے والوں نے دراصل اسلام کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ اسی طرح قرآن مجید کیخلاف پراپیگنڈا کرنے والوں نے بھی قران حکیم کو چھو کر بھی نہیں دیکھا! ہلاکت میں گھِرے اِنہی لوگوں میں ایک بدبخت ”ٹیری جونز“ تھا جس نے قرآن مجید کا مطالعہ کیے بغیرکتابِ مقدس کیخلاف جھوٹا پراپیگنڈا شروع کیا اور پھر کائنات کی اِس مقدس ترین کتاب کو نذر آتش کر کے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے کی گستاخی کی بلکہ سستی شہرت حاصل کرنے کی انتہائی نیچ حرکت بھی کر ڈالی تھی۔ ٹیری جونز کی مکروہ، مذموم اورملعون حرکت کے بعد ایک جانب یورپ اور مغرب میں توہین آمیز خاکوں کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی مذموم کوششیں شروع ہونے لگیں تو دوسری جانب بھارت میں مسلمانوں کو بزور طاقت ہندو بنانے کی قبیح رسم کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اگر اس طرح کی حرکتیں کرنے کی بجائے یہ اسلام دشمن طبقہ ذرا سی بھی تحقیق کرنے کی کوشش کرتا تو اُسے معلوم ہو جاتا کہ دنیا میں سلامتی اور امن کیلئے اسلام جیسا دوسرا کوئی مذہب نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اسلام کا پیغام دنیا کے کسی مذہب یا عقیدے میں بیان کی گئی اچھی باتوں کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں ناصرف دنیا کے تمام عقائد اور مذاہب کی اچھی باتیں موجود ہیں بلکہ اُن سے کئی گنا زیادہ اچھی باتیں اور ہر طرح کی اچھی باتیں اسلام میں موجود ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ اسلام نے انسانیت، انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کو نقصان پہنچانے والی تمام بُری باتوں سے منع ہی نہیں کیا بلکہ انتشار اور فساد پھیلانے والی باتوں کو گناہ قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق پر جس قدر اسلام اور قران میں زوردیا گیا ہے، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ مسلمان نہ صرف تمام انبیاءپر ایمان رکھتے ہیں بلکہ مسلمانوں کیلئے غیر تحریف شدہ دیگر آسمانی کتب بھی اتنی ہی مقدس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک توریت، انجیل اور زبور سمیت دیگر مقدس صحائف کی بے حرمتی بھی اُسی طرح اشتعال کا باعث ہے۔ ایک سچے مسلمان کا تو یہ بھی ایمان ہوتا ہے کہ کسی بھی نبی کی توہین کرنے والا شخص مسلمان نہیں ہوسکتا اور غالباً یہی بات ٹیری جونز اور توہین آمیز خاکے بنانے والے سٹیفن شارب جیسے دہشت گردوں کو ہضم نہیں ہوتی۔
قارئین کرام! اسلام کو انتہا پسندی یا دہشت گردی کا مذہب قرار دینے والے ہندو پُجاریوں اور یورپی کارٹونسٹوں کو بیسویں صدی کے مشہور ہندو صحافی، مو¿رخ، دانشور اور سفارتکار ڈاکٹر کاوالام مدھوا پانیکر کی تصانیف سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر کے ایم پانیکر نے پورے تن من دھن سے ناصرف علم حاصل کرنے کی لگن سینے سے لگائے رکھی بلکہ اِس علم کی بنیاد پر اصل حقائق کے بارے میں بے خوف ہو کر اپنے لوگوں کو بتایا۔ مثال کے طور پر ہندو تہذیب اور ہندو مذہب پر اسلام کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر پانیکر اپنی معرکہ الآرا تصنیف ”اے سروے آف انڈین ہسٹری“ میں لکھتے ہیں کہ ”یہ بات تو واضح ہے کہ مسلمانوں کے عہد میں ہندو مذہب پر اسلام کا گہرا اثر پڑا، ہندوو¿ں میں خدا پرستی کا تصور اسلام ہی کی بدولت پیدا ہوا اور اس زمانے کے تمام ہندو پیشواو¿ں نے اپنے دیوتاو¿ں کے نام چاہے کچھ بھی رکھے ہوں لیکن اُنہوں نے اسلام سے متاثر ہو کر لوگوں کو تعلیم خدا پرستی کی ہی دی، یعنی خدا ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے اور اُسی کے ذریعہ ہمیں نجات مل سکتی ہے۔“ یہ کے ایم پانیکر ہی تھے جنہوں نے ہندو ہونے کے باوجود ناصرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے منسلک ہو کر مسلمان طلبہ کو تعلیم و تحقیق کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ مسلمان طلبہ بھی اُن جیسے اساتذہ سے اکتساب فیض کرنا اپنے لیے باعث فخر محسوس کرتے تھے۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ غیر مسلموں میں سچ بولنے والے پانیکر باقی نہیں رہے بلکہ اب صرف توہین آمیز خاکے بنا کر دہشت گردی اور اشتعال پھیلانے والے چارلی ایبڈو باقی رہ گئے ہیں۔
چارلی ایبڈو باقی رہ گئے ہیں
Jan 12, 2015