عمران خان کی شادی کے بعد ذکا اشرف کے بیٹے کی شادی کا چرچا ہے کیونکہ میزبان ”صدر“ زرداری ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ولیمہ بلاول ہاﺅس میں ہو رہا ہے۔ اگر ذکا اشرف کا اپنا ولیمہ ہوتا تو زیادہ شور شرابہ ہوتا۔ ”صدر“ زرداری دوستوں کے دوست ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ ایوان صدر کو بھی شادی ہال بنا دیا تھا۔ مگر ”دوست“ وہی ہے جس کو وہ دوست سمجھیں یا سنیٹر ڈاکٹر قیوم سومرو سمجھائے کہ یہ ”صدر“ زرداری کے ”دوست“ ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ نواز شریف نے نجم سیٹھی کی حمایت قومی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لئے کیوں کی تھی۔ مگر یہ وجہ ”صدر“ زرداری کے ساتھ دوستی کے لئے اتنی نہ تھی جتنی نجم سیٹھی کے ساتھ نواز شریف کی اپنی دوستی کے لئے تھی۔ یہ دوستی بھی اب اتنی نہیں رہی؟ کہ اپنے ٹی وی پروگرام میں نجم سیٹھی نواز شریف پر تنقید بھی کر دیتا ہے۔ وہ نگران وزیر اعلیٰ بھی ”صدر“ زرداری کی سفارش پر نواز شریف کی قبولیت کے بعد ممکن ہوئے تھے۔ تب عمران خان بھی ان کے حامی تھے۔ بعد میں نجم سیٹھی میں عمران نے کونسی خامی نکال لی کہ بات بگڑ گئی۔
عمران نے مفتی سعید کے مدرسے میں اپنا ولیمہ کیا۔ اس پر تو مولانا فضل الرحمن کو خوش ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے اکیسویں ترمیم کے لئے ووٹ بھی نہیں ڈالا مگر سیاستدان کی پسند و ناپسند ذاتی ہوتی ہے یا سیاسی ہوتی ہے۔ حضرت مولانا مدرسے کو پسند کرتے ہیں مگر وہاں عمران کا ولیمہ نہیں ہونا چاہئے۔ اور ان کے سامنے ریحام خان بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ میڈیا نے اس ولیمے کو بہت اٹھایا ہے اور عمران اور ریحام کو زمین پر بیٹھے ہوئے کھانا کھاتے دکھایا گیا ہے۔
زمین پر جنرل راحیل شریف بھی پشاور میں بیٹھے ہوئے پشاور کے شہید بچوں کے لئے قرآن خوانی کر رہے تھے۔ ان کی بیگم بھی خواتین کی قرآن خوانی میں موجود تھیں۔ وہ پہلی مرتبہ گھر سے باہر آئیں جب پشاور کے زخمی بچوں کے لئے ہسپتال میں عیادت کر رہی تھیں۔ وہ پوری طرح چادر میں تھیں۔ دوپٹہ تو ریحام کے سر پر بھی تھا مگر ”مشرقی اور مغربی دوپٹے“ میں فرق ہوتا ہے۔ جمائما نے جو دوپٹہ لیا ہوا تھا وہ بھی ریحام خان کے دوپٹے سے بہتر تھا۔
عمران خان کو شادی میں اتنی جلد بازی نہیں کرنا چاہئے تھی۔ ابھی تک پشاور کے شہید بچوں کے خون کی خوشبو پورے ملک میں پھیل رہی تھی۔ APC میں بھی اس خوشبو کی سرمستی دیکھی گئی تھی جو قومی اسمبلی میں کچھ سیاستدانوں کی سیاست میں بدمست کی جا رہی تھی۔ سنا ہے عمران نے شادی میں جلدی ریحام خان کی محبت میں کی تھی۔ انہیں پسند نہیں تھا کہ غلط غلط خبریں ریحام خان کے لئے آئیں۔ عمران خان کو اپنی کردار کشی سے ریحام خان کی کردار کشی زیادہ بری لگی تھی۔ عمران نے کہا کہ میں ریحام خان سے بے وفائی نہیں کروں گا۔ پہلے وہ یہ تو بتائے کہ بے وفائی کیا ہوتی ہے؟ جمائما نے اب اپنے نام کے ساتھ خان ہٹایا ہے۔ یعنی بے وفائی اب ہوئی ہے۔ پہلے معاملات کیا تھے؟ مگر اس حال میں بھی جمائما نے ہنی مون کے لئے نئے نویلے جوڑے کو لندن کی دعوت دے دی ہے۔ یہ دعوت ہے یا ”عداوت“ ہے۔ اب دعوت اور عداوت میں فرق مٹ گیا۔
”صدر“ زرداری کو چاہئے کہ وہ بلاول ہاﺅس کو ”ماڈرن“ شادی ہال بنانے کے لئے کسی بڑے سے کمرے میں ولیمے کا انتظام زمین پر کرے۔ سنا ہے بلاول ہاﺅس میں سینکڑوں کمرے ہیں۔ ایک کمرہ شادی ہال کے لئے مستقل کر دیا جائے تاکہ ان کی دوستی کی دھاک بیٹھ جائے۔ پوری دنیا میں نہ سہی پورے پاکستان میں تو ہو کہ پیپلز پارٹی کے جس غریب و غیور کارکن کی شادی کا ولیمہ بھی ہو تو وہ بلاول ہاﺅس میں ہو۔ اگر مشکل پیش آئے تو غریب کے ساتھ غیور کا لفظ ہٹا دیا جائے۔ کیونکہ ”صدر“ زرداری کے دوستوں کے لئے یہ غیرضروری ہے۔ جس کا ولیمہ بلاول ہاﺅس میں ہو گا وہ پہلے نہیں تو بعد میں ”صدر“ زرداری کے دوستوں میں شامل ہو جائے گا۔ ذکا اشرف تو کہیں بھی ولیمہ کر سکتا ہے۔ وہ کہاں جائیں جو اپنے گھر میں ولیمہ نہیں کر سکتے۔
میرے دوست منور انجم نے مجھے بتایا کہ مجھے ذکا اشرف نے بلایا ہے۔ منور انجم شریک ہو رہا ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو شہید بی بی کا مخلص کارکن تھا وہ زرداری صاحب کا بھی مخلص ہے اگرچہ وہ مانتے نہیں ہیں۔ اسے بھی ولیمہ میں ”صدر“ زرداری کو بلانا چاہئے تھا مگر سنا ہے کہ اس کی فہرست سومرو صاحب نے بنائی ہے؟ اگر میڈیا کا معاملہ منور انجم کے سپرد ہوتا تو مثبت کامیابیاں ملتیں۔ اب ”منفی کامیابیاں“ ملی ہیں۔ کامیابی کا میابی ہوتی ہے۔ منفی ہو یا مثبت ہو۔ اگر یہ کام شیخ ریاض کو مل جاتا تو بھی ٹھیک تھا۔ اس نے ٹی وی چینل بنایا۔ تھوڑے دنوں میں کامیاب کر دکھایا ہے اور ”صدر“ زرداری کے نام کر دیا ہے۔ وہ صرف کارکن نہیں ہے۔ ”صدر“ زرداری کا عاشق بھی ہے۔ کسی معروف سیاستدان نے ”صدر“ زرداری کو بھی دوسری شادی کا مشورہ دیا ہے۔ مگر شہید بے نظیر بھٹو کی شادی سے جو کچھ ”صدر“ زرداری کو ملا ہے وہ کسی بھی دوسری شادی سے نہیں مل سکتا۔ عمران کے لئے بھی میرا خیال یہی ہے جو جمائما کے ساتھ شادی میں ملا۔ وہ دوسری اور تیسری شادی میں نہیں مل سکتا؟ مگر ان معاملات میں ”صدر“ زرداری کی سیاست اور سوچ کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ انہیں خود فیصلہ کرنے دیا جائے۔ یہ سرائیکی اشعار جو میں لکھ رہا ہوں مجھے کیوں یاد آئے اور یہ کس کے لئے ہیں؟ فیصلہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہونا چاہئے۔
میں کیچ دی ملکہ تھیساں جد پرنیساں
میں نال پھلاں دے تلیساں جد پرنیساں