قوم ۔ ’’فول‘‘ کے عہدہ کیلئے تقرریوں کی منتظر!

شہرہ آفاق ڈرامہ نگار شیکسپئر نے اپنے کئی شاہکار ڈراموں میں زمانہ قدیم کے بادشاہوں اور شہزادوں کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا ہے۔ بادشاہوںکے ساتھ مسلسل نتھی طنز و مزاح سے سرشار ایک ایسا کردار متعارف کرایا ہے جِسے Fool یا Clownیعنی بیوقوف یا بھانڈ کا نام دیا گیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے شیکسپئر کی بر سی پر نوائے وقت میں اپنے خصوصی کالم کے ذریعے شیکسپیئر کے افکار کی زمان و مکاں کی قید سے آزاد موجودہ دور میں بھی انتظامی اور فکری ڈھانچے کیلئے افادیت کا ذکر کرتے ہوئے خراجِ تحسین پیش کیا ہے جس سے ہم آج بھی بخوبی مستفید ہو سکتے ہیں ۔فُول ایک ایسا کردار ہے جو بادشاہ کو کڑیل فیصلہ کن لمحات میں نہایت برجستہ پھبتی یا جگت کستے ہوئے کوئی انتہائی دانشمندانہ مشورہ تفویض کر دیتا ہے اپنی مزاحیہ وراثتی مہارت سے اُسکے ذہنی عصابی تناو کو نرم کرتا ہے اور بادشاہ کیساتھ ساتھ ناظرین کو مزاح اور پُرسکون ماحول میں واپس لے آتا ہے۔ قدیم و جدید ریاست میں بادشاہ یا افسران وقت کے دربار میں بہرحال کئی طرح کے وزیر ، مشیر و درباری تانتا باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ سیاستدان‘ ریٹائرڈ و حاضر سروس سرکاری انتظامی و عسکری افسران‘ مذہبی، سماجی، معاشی و صحافتی دانشور درباروں میں شاہ سے بھی بڑے وفادار نظر آتے ہیں۔
بڑھ کے تھام لیا جس نے مینا اسی کا ہے! لکشمی ان کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ملاتے امراء پر مراعات کی مالا پہنا تی ہے۔ جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں ہم خودی کو بلند کرتے رہے۔ ماشاء اللہ ، سبحان اللہ ، کیا بات ہے۔ کیا سوچ اور وژن ہے۔ جناب کے اقدامات ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرکے ہی دم لیں گے۔ آج سے پہلے کسی حکمران نے عوام کی بہتری کیلئے کبھی ایسا نہیں سوچا جیسا جناب نے! جناب کی بہتر حکمت عملی کے سبب معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ملک ترقی کی نئی منزلیں طے کرچکا ہے اور یہ کہ جناب کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائیگا۔ جناب کا رتبہ بلند ہو‘ ’’رنگ لگے رہن ، بھاگ لگے رہن‘‘ جیسے شگفتہ جملے کبھی بلند و بانگ چھتوں اور کبھی ایک دوسرے کو جھنجوڑتے نظر آتے ہیںکہ کچھ زیادہ ہی نہیں کہ دیا۔ ماضی کے برعکس آج فُول بادشاہ سے جان کی امان کی بجائے نوکری کی امان کا وعدہ لے کر کوئی جدید پالیسی یا پراجیکٹ گوش گزار کرنے کی جسارت کرتا ہے تاکہ گورنینس کے اچھے اثرات مرتب ہوں اور خلق خدا بھلا پائے۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ! تاہم ایسے فول درباریوں اور افسروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، ایسا خدا ترس درباری چاہتا ہے کہ وہ اپنے ضلع میں عوامی فلاح کے بہترین منصوبے لائے، پولیس افسر چاہتا ہے کہ وہ کرائم کنٹرول کے ساتھ ساتھ عوام کی سماجی تربیت کرے تاکہ لوگ جرائم کی طرف مائل ہی نہ ہوں، نیک ٹیکس افسر چاہتا ہے کہ ٹیکس کا بھاری بوجھ عام آدمی کی بجائے معاشی طور پر مستحکم طبقہ پر ڈالا جائے اور حاصل شدہ محصولات کا صحیح استعمال ہو تاکہ لوگ خوشی سے ٹیکس ادا کریں وہ چاہتا ہے کہ بطور ٹریڈ آفیسر وہ تاجر کو سہولتیں فراہم کرے تاکہ تجارت کو فروغ مل سکے۔ زیرک اکائونٹس آفیسر چاہتا ہے کہ اُسے ایسا بجٹ تجویز کرنے کی اجازت ہو جو حقیقتاً عوام دوست ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ ریلوے اور ڈاک کا اتنا باسہولت نظام ہو کہ لوگ پرائیوٹ کمپنیوں کے استحصال کا شکار نہ ہوں- باوقار سفیر چاہتا ہے کہ ایسی مربوط اور آزادانہ خارجہ پالیسی مرتب کرے کہ ملک اور قوم کی عزت اور وقار پر کوئی آنچ نہ آئے- شیکسپیئر کا ایسا فول دانتوں سے باہر آتی زبان سے شاہ کو مسلسل جھُرجھری میں مبتلا کرتا ہے- اسٹیٹس کو ء توڑنے کی سازش کا مرتکب اور نئے مسائل پیدا کرنے کا موجب قرار دیا جاتا ہے حتیٰ کہ اُسے موتیوں والا ، پاگل ، سرپھرا اور مس فٹ قرار دے کر بالآخر بے دخل کر ہی دیا جاتا ہے-
آج کا شاہ ایک طرف ایسے درباریوں کو ایسی محبانہ بے تکلفی کادور جام ہی فراہم نہیں کرتا اور دوسری طرف اُسکے تخلیقی مشورے کو دیوانے کا گیت کہہ کر اُسکے تحرک کوبے وقتی راگنی کہتے جنم سے پہلے ہی کُچل دیا جاتا ہے اور یا پھر کوئی نکا بڑا شاہ اُسکی تخلیقی مانگ میں اپنا سندور بھرتے منڈپ میں خود پھیرے لے لیتا ہے ۔ یوں ہماری نام نہاد جمہوری گُڈ گورننس میں کسی نئے لیکن قابل فُول کی گنجائش برداشت ہی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کوئی مضبوط انتظامی ڈھانچہ سامنے آ پاتا ہے- مغل بادشاہ اکبر اپنے ٹوڈرمل جیسے شیکسپیئر کے فُول وزیر کی بے تکلف تنقید سے مستفید ہوتے سلطنت کو دن دُگنی رات چگنی ترقی اور وسعت عطا کرتا ہے- ہسپانیہ میں زریاب نامی موسیقار نے بے تکلف مشاورت سے سلطنت کو کئی ایجادات سے نوازا - مسلمانوں کے عباسیہ ، ہسپانیہ اور مغلیہ ادوار میں کئی فُول اور خواجہ سرائوں نے سلطنت کو دوام بخشا اور شکسپئیر کے کردارفُول یا بھانڈ کیطرح ایسے ایسے مفید مشورے دیئے کہ جس پر عمل پیرا ہوکر خلق خدا کی بہتری کیلئے جامع اقدامات اُٹھائے گئے - خلق خدا کی خوشی نے بادشاہوں کی راج نیتی اور حکمرانی کو دوام بخشا- پنجاب کی دیہاتی باراتوں میں آج بھی بھانڈ اپنی مزاحیہ جُگتی چوٹ کے سہارے چوہدری، دلھا اور حتیٰ کہ سیاسی قیادت کیلئے ایسی پتے کی بات کر جاتے ہیں کہ شکسپئر کے فُول کی یاد تازہ ہو جاتی ہے- شیکسپئر کا فُول آج کے شاہ کے ہمہ وقت آس پاس منڈلاتا دکھائی دیتا ہے امور سرکار پر کڑی نظر رکھتا ہے ، مفید مشورے بے تکلفی میں دینے کی قدرت رکھتا ہے- اچھے اور مربوط نوٹ اورخلاصے پیش کرسکتا ہے لیکن شکسپئر کے ذاتی مفاد اور طمع نفسی سے پاک اُس فُول کے خلوص سے یکسر عاری ہے جو بادشاہوں کی غلط پالیسی کے سبب منفی نتائج کے برآمد ہونے کے پیش نظر آنکھوں میں نمی لیـئے بادشاہ کو گریہ دل سے مشورہ دیتا تھا۔
ہمارے انتظامی ڈھانچے میں درحقیقت شیکسپئر کے فُول اور کلائون کرداروں کی شدید قلت لیکن طلب کا شدید فقدان ہے جنہیں عرف عام میں پاگل ، بیوقوف یا اینٹی اسٹیسٹس کو کہا جاتا ہے۔ ایمان ہے کہ چند ان فٹ نہیں بلکہ مس فٹ موقع ملنے پر بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ اور فُول کہلانے پر فخر محسوس کر سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...