اقتصادی راہداری منصوبے کو کامیاب بنانا ہم سب کیلئے چیلنج ہے: احسن اقبال

Jan 12, 2016

اسلام آباد(نوائے وقت رپورٹ+ صباح نیوز) وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری سے متعلق کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ منصوبے کو کامیاب بنانا ہم سب کے لیے چیلنج ہے۔ ملک کی معاشی ترقی کے لیے سیاسی افراتفری کو ختم کرنا ہو گا۔ راہداری منصوبے سے معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ نجی ٹی وی سے گفتگو اور تقریب سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ جب جاپان، ملائشیا اور چین معیشت میں ترقی کر سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں۔ پہلی غلط فہمی ہے کہ اقتصادی راہداری کا روٹ تبدیل کر دیا گیا۔ جبکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ایسا نہیں کہ چین نے 46 ارب ڈالر پاکستانی حکومت کی جیب میں ڈال دیے ہوں۔ 46 میں سے 35 ارب ڈالر کی رقم توانائی کے منصوبوں کے لیے ہے۔ یہ درست نہیں کہ صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ 12 نومبر 2015ء کو اقتصادی راہداری پر تمام وزراء اعلیٰ کو خط ذاتی طور پر لکھا تھا۔ اقتصادی راہداری کا مغربی روٹ دسمبر 2016ء میں آپریشنل ہو جائے گا۔ راہداری سے متعلق انٹرنیٹ پر غلط نقشوں کے ذریعے مہم چلائی گئی ہے۔ معلوم نہیں کہ غلط نقشے کس نے انٹرنیٹ پر ڈالے۔ مشرقی روٹ کو مکمل ہونے میں تین سال کا وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر اور …… کے درمیان 650 کلو میٹر ایریا میں سڑک کا نشان تک نہیں تھا۔ 46 ارب ڈالر کے منصوبے میں ایل این جی کا کوئی منصوبہ شامل نہیں۔ اختر مینگل نے اس منصوبے کا ذکر کیا وہ اقتصادی راہداری کا حصہ نہیں۔ گوادر کے لیے 600 میگا واٹ کا پاور پروجیکٹ ہے۔ گوادر کے ماہی گیروں کو متبادل جگہ اور روزگار دینے میں مدد کریں گے۔ 2005ء تک 25 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کر لیں گے۔ اگر دس ہزار میگا واٹ بجلی ابھی لے آئیں تو لوگوں تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ 2013ء میں جینرو اور سٹینڈرڈ اینڈریوز کا اندازہ تھا ملک دیوالیہ بہہ جائے گا۔ 2013 میں امن و امان سمیت تمام مسائل موجود ہیں۔ احسن اقبال نے واضح کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں مغربی، وسطی اور مشرقی تینوں روٹس شامل ہیں بعض لوگ اس منصوبے میں صرف مشرقی روٹ کی گمراہ کن مہم چلا کر حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اختر مینگل کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔ چین سے گوادر تک کے لیے نئی سڑک بنانے کا چین نے کوئی پیسہ نہیںدیا۔ 2013میں جب وزیر اعظم عہدہ سنبھالنے کے بعد دورے پر چائنہ تشریف لے گئے اس موقع پر ایم او یو پر دستخط ہوئے جس میں اس بات کا عزم کیا گیا کہ دونوں مل بیٹھ کر پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے مختلف شعبوںمیں تعاون کریں گے اور روڈ کے رابطوں کا بھی جائزہ لیں گے لہذا 2013سے کوئی طے شدہ روٹ نہیں ہے جس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ قدرت نے ہمیں ایک بہت بڑا موقع فراہم کیا ہے۔ حکومت جہاں سی پیک کر رہی ہے وہاں کیرک بھی کر رہی ہے جو سنٹرل ایشیاء ریجن اکنامک کوآپریشن کا فریم ورک ہے جسکے تحت دو کوریڈور اور ہیں ایک کوئٹہ سے اور دوسرا پشاور سے ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیاء کو ملائے گا۔

مزیدخبریں