دمشق+پیرس(صباح نیوز+بی بی سی+اے ایف پی)شا م میں ایک سکول پر روس کی فضائی بمباری کے نتیجے میں خاتون ٹیچر اور 12کمسن طالبعلم جاں بحق جبکہ اساتذہ سمیت 20 سے زائد بچے زخمی ہوگئے ایک غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق روسی طیاروں نے شامی صوبے حلب کے علاقے انجارا میں ایک سکول کو نشانہ بنایا۔بمباری کے بعد امدادی ٹیموں نے بیشتر زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جہاں کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے جبکہ حملے کے نتیجے میں سکول کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔فرنیچر بکھر گیا ہر طرف خون پڑا تھا۔ شام میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں بمباری کی گئی ہے اس کے زیادہ ترحصے پر شامی باغیوں کا قبضہ ہے اوراس پر قبضے کے لئے حکومتی افواج اور باغیوں میں جھڑپیں جاری ہیں۔واضح رہے کہ شام میں خانہ جنگی اوراتحادی طیاروں کی بمباری کے باعث اب تک بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد پناہ کی غرض سے یورپی ممالک کی طرف ہجرت پرمجبور ہیں۔برطانوی وزیراعظم کیمرون کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے داعش کے ٹھکانوں پر حملے کئے اور پہلی بار ’’برم سٹون‘‘ میزائلوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے زور دیا روس اور شام فوجی آپریشن میں شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ ایسی کارروائیاں بند ہونی چاہئیں۔ شام کے باغیوں کے زیرِ قبضہ قصبے مضایا کے لیے اقوام متحدہ کا ایک امدادی قافلہ روانہ ہو گیا ہے جہاں اطلاعات کے مطابق لوگ فاقہ کشی سے مر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی جانب سے روانہ کی گئی خوارک 40 ہزار افراد کی ایک ماہ کی ضروریات پوری کر سکے گی۔خوراک کے بعد ادویات اور دوسری اشیا کو رواں ہفتے ہی علاقے میں روانہ کیا جائے گا۔ اتوار کو ایک قافلے کو باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے پہنچنا تھا تاہم آخری لمحات میں کچھ مسائل کی وجہ سے یہ قافلہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔ دوسری جانب سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) کے برائس دا لا وگنے نے قصبے کی صورتحال کو ’بہت ہولناک‘ قرار دیا ہے۔دا لا وگنے جن کی تنظیم مضایا میں موجود ڈاکٹروں سے رابطے میں ہے، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں موجود 250 سے زائد افراد ’شدید غذائی قلت‘ کا شکار ہیں۔انھوں نے مزید بتایا ’اْن میں سے 10 افراد کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے وہاں سے نکالے جانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہ مرجائیں گے۔‘ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے حال ہی میں خوراک اور ادویات کی پہلی کھیپ مضایا لے جانے کی اْمید ظاہر کی تھی۔تاحال یہ واضح نہیں کہ امداد کی مضایا آمد میں تاخیر کی وجہ کیا رہی تاہم بیروت میں بی بی سی کے نامہ نگار جم میور کا کہنا ہے کہ ایسے علاقے سے امدادی قافلے کا گزرنا ایک مشکل مرحلہ ہے جہاں فریقین برسرِپیکار ہوں اور علاقے کا محاصرہ ہو۔مضایا تک امداد پہنچانے کے سلسلے میں شامی حکومت اور باغیوں کی اعلیٰ قیادت کے علاوہ وہاں موجود متحارب کمانڈروں کے درمیان بھی اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔محاصرہ شام کی خانہ جنگی کا ایک جزو رہا ہے لیکن مضایا کی حالتِ زار نے جزوی طور پر بْری طرح سے خوراک کی کمی کے شکار وہاں کے رہائشیوں کی تصاویر سامنے آنے کی وجہ سے بین الاقوامی توجہ مبذول کرالی ہے۔خیال رہے کہ شام کی 45 لاکھ آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے اور ان میں سے چار لاکھ افراد ایسے 15 محصور علاقوں میں رہتے ہیں جہاں انھیں ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔