کراچی (ضمیر شیخ + نوائے وقت رپورٹ+ایجنسیاں) صحرائی ضلع تھر پار کر میں قحط سالی کے باعث مزید ہلاکتیں، دو ماہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد 72 ہوگئی۔ حکومت سندھ اقدامات کرنے اور قابو پانے میں ناکام رہی۔ سول ہسپتال مٹھی کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں جس کے باعث نومولود جاں بحق ہوئے۔ قحط سالی کی مصیبت نے بھی لوگوں اور مویشیوں کو نقصان پہنچایا۔ حکومت سندھ نے مٹھی ہسپتال کے بجٹ سے اضافہ کیا لیکن عملدرآمد نہ کیا جا سکا۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے گذشتہ سال تھر کی قحط سالی پر کئے گئے وعدے ادھورے ہی رہ گئے۔ متاثرین آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔ متاثرین میں مفت گندم تقسیم کا آٹھواں مرحلہ بھی التواء کا شکار ہوگیا۔ مرنے والے بچوں کے لواحقین کو 2 لاکھ فی کس دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا جا سکا۔ تھر کے 2 لاکھ 54 ہزار خاندانوں میں مفت گندم تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی زیر صدارت تھر پر ہونیوالے اجلاس میں کیا گیا تھر کہ دور دراز علاقوں میں مزید موبائل ہیلتھ یونٹس بھیجے جائیں گے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ، فریال تالپور، نثار کھوڑو اور ناصر شاہ نے شرکت کی۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے سید سلمان شاہ اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے ریلیف و بحالی علی حسن ہنگورجو جنہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر تھر کا دورہ کیا تھا نے اجلا س کو بریفنگ دی۔ سلمان شاہ نے کہا یکم جنوری تا 10جنوری تک 17نوزائیدہ بچے جاں بحق ہوئے۔ سید ناصر حسین شاہ جنہوں نے بھی تھرکا دورہ کیا تھا کہا ان کے مشاہدہ کے مطابق تھر کے علاقے میں رہنے والے لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھر میں کوئی خشک سالی نہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ہدایت کی کہ وہ تھر کے لوگوں میں مفت گندم تقسیم کریں۔