دہشت گردی کی جنگ میں فوجی عدالتوں نے جس تندہی اوردلیری سے کام کیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ اور ہمارے اپنے وجود کے تحفظ کی کہانی ہے۔ 7 جنوری 2017ءکو بظاہر ختم ہونے والے فوجی عدلیہ آئین پاکستان کے تحت کام کرتی رہی۔ گزشتہ دو سالہ مدت کے دوران فوجی عدالتوں کو 274 مقدمات بھجوائے گئے‘ جن میں سے 161 مقدمات کے مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ فوجی ٹریبونل نے پہلا ٹرائل فروری 2015ءمیں شروع کیا تھا اور دو ماہ کے اندر مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا جبکہ آخری سماعت 28 اگست 2016ءکو یکسو ہوئی یہ بڑے ریکارڈ کی بات ہے کہ مقدمات کی سماعت کے ضمن میں فوجی عدالتوں نے کوئی وقت ضائع نہیں کیا‘ دن رات پیہم کام کرکے مقدمات کو نمٹایا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ تاہم اس ضمن میں بیس کروڑ محب وطن پاکستانیوں کے اذہان میں قومی امنگوں کے زیر اثر بہت سے سوالات گردش کررہے ہیں جو یہ ہیں: کیا فوجی عدالتوں نے وہ ٹارگٹ حاصل کرلیا جو ضرب عضب آپریشن کے حوالے سے حاصل کرنا چاہیے تھا؟ ان عدالتوں کے فیصلوں سے دہشت گردی کے تدارک میں کیا اور کتنی مدد ملی؟ فیصلے انصاف کے جملہ تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر کئے گئے یا نہیں ؟ فوجی عدالتوں کی کارکردگی پر عوامی ردعمل کیا رہا؟ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سیکورٹی اداروں کے اطمینان کی کیا صورتحال رہی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تحفظات ظاہر کرنے والوں کے خدشے اور توقعات کیا رہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ قانونی اور آئینی ماہرین نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر کیا ردعمل ظاہر کیا؟ بادی النظر میں گزشتہ دو سالہ دورانیہ میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والے نقد ونظر اور ردعمل کو سامنے رکھ لیا جائے تو یہ بات خاصی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ آئین کے ایکٹ 2015ءکی 21 ویں ترمیم کے ذریعے بننے والی فوجی عدالتوں کے جواز پر تو معدودے چند ناقدانہ آراءسامنے آتی رہیں لیکن بعدازاں ان عدالتوں کے فیصلوں کی پورے ملک میں کہیں مخالفت ہوئی اور نہ ہی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بالخصوص آرمی پبلک سکول پشاور کی دہشت گردی میں ملوث 7 مجرموں کو سزائے موت اور سانحہ صفورا گوٹھ سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کے مجرمان کو سزائیں ملنے پر ملک کے طول وعرض میں اطمینان کا اظہار کیا گیا‘ یہی نہیں بلکہ فوجی عدالتوں بارے تشکر کے جذبات کا اظہار بھی کیا گیا یہ اس لئے بھی ہوا کہ آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کیخلاف کھلی جنگ کے دوران پوری قوم فوج کی پشت بان تھی اور اب تک ہے۔ فوج کے اس ملی کردار کو ملک بھر میں عمومی طورپر جس پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ‘ اسی کے تحت جنرل(ر) راحیل شریف کو قومی ہیرو کے طور پر اب بھی قبول کیا جاتا ہے۔ فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر باجوہ کو بھی پوری قوم اسی نظر سے دیکھتی اور جانتی ہے ۔فوجی عدالتوں کے قیام کے ضمن میں آئی ایس پی آر کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ فیصلہ ایسے وقت اور ماحول میں کیا گیا جب سول عدلیہ کا نظام معمول کیمطابق کام تو کررہا تھا لیکن دباو¿ میں تھا۔ عدالتیں اور جج بھی دہشتگردوں کے نشانے پر تھے اور یہ بھی حقیقت ہے ججوں کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس تناظر میں آئینی وقانونی ماہرین کا یہ سوال اپنی جگہ صائب اور درست ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت حکومت نے فیصلہ کیا تھا وہ گواہوں کو تحفظ دینے اور عدالتی نظام کو طاقت وربنانے کیلئے اصلاحات کریگی‘ ایک سوال ہے کہ کیا تاحال یہ سب کچھ کرلیا گیا ہے؟ اس ضمن میں صاف نظر آرہا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اورجہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں سے ہم نے کیا کھویا‘ کیا پایا؟ نیز فوجی عدالتیں جن مقاصد کے تحت قائم کی گئی تھیں کیا وہ حاصل کرلئے گئے؟ ان ہر دو سوالوں کے جواب ہمیں فوجی ٹربیونلز کی کارکردگی اور کئے گئے جرا¿ت مندانہ فیصلوں میں مل سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے حوالے سے بھی انکے شافی جوابات مل سکتے ہیں۔سوال یہ بھی نہیں کہ فوجی عدالتوں کی کارکردگی اورفیصلوں کی افادیت کیا ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اسکے ذریعے دہشت گردوں کےخلاف آپریشن میں فوج کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔یہی نہیں بلکہ مسلح افواج اور تمام سیکورٹی اداروں سمیت مجاز حکومتی اداروں کو بھی ایک نیا پوٹینشل ملا ہے اگرچہ پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور جے یو آئی سمیت بعض دیگر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کے قیام سے لےکر آج تک اس فیصلے کے جواز پر تحفظات کا شکار ہیں بلکہ اس ضمن میں کہا جاسکتا ہے کہ ان قوتوں کو بھی فوجی عدالتوں کے فیصلوں سے داخلی طور پر تقویت حاصل ہوئی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ فوجی ٹریبونلز کے قیام کے جواز پر تحفظات کا شکار بعض قوتیں اپنے موقف کے اخلاص پر بات کرتی ہیں‘ وہ چاہتی ہیں ملک کے رائج سول عدالتی نظام میں کوئی مداخلت ہو اور نہ ہی اسکے متبادل کوئی اور نظام رائج کیا جائے مگر ان کا خدشہ بھی مبنی پرحقیقت نہیں ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ فوجی عدالتوں نے قطعاً سول عدالتی نظام کو متاثر نہیں کیا بلکہ ایک لحاظ سے دہشتگردی کے خاتمے کی جانب رواں دواں عدالتی نظام کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ عدالتی نظام اسی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے کرسکتا ہے کہ جب اس پر منفی دباو¿ اور کسی قسم کا کوئی غیر اخلاقی پریشر نہ ہو۔فوجی عدالتوں کو چونکہ تحفظ کے تمام وسائل میسر رہے ہیں لٰہذا انہوں نے گزشتہ دوسالوں میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ریکارڈ مقدمات سمات کئے اور دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔فوجی عدالتیں بہر طور آئین اور قانون کے طابع رہیں ملزمان کو انصاف کے تمام تقاضوں کے مطابق پوری صفائی کے مواقع فراہم کےے گئے اور فیصلے آزادانہ ماحول میں ہوئے ان میں سے بعض فیصلے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں بھی چیلنج کےے گئے جو اس امر کی غماضی ہے کہ ملزموں کو صفائی کا ہر موقع فراہم کیا گیا۔اس ملک کی فوج اور اسکے ادارے بھی ہمارے ہی ہیں جو قومی تقاضوں اور آئینی حدود میں کام کرنے کے عادی ہیں فوج کے بارے فی الوقت اعتماد کی ایسی فضا قائم ہے جس میں ہر پاکستانی مطمئن ہے اور یہ اطمینان اسکے ایمان وایقان کاحصہ بھی ہے۔جب تک ہمارے بیس کروڑ عوام کا داخلی منظر نامہ ان حقائق پر مبنی ہوگا ہم دہشت گردوں سمیت کسی بھی اندرونی یا بیرونی طاقت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔
فوجی عدالتیں.... کیا کھویا‘ کیا پایا؟
Jan 12, 2017