اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان نے ایٹمی آبدوز لیز پر حاصل کرنے یا خود بنانے کے مہنگے، طویل اور تکنیکی اعتبار سے مشکل راستہ اختیار کرنے کے بجائے روایتی ڈیزل الیکٹرک آبدوز سے ایٹمی وارڈ کا حامل کروز میزائل داغ کر ’’ سیکنڈ سٹرائیک‘‘ کی ضرورت با آسانی پوری کر لی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان نے دو روز پہلے کروز میزائل بابر سو م کا زیر آب کامیاب تجربہ کیا تھا۔ایک مستند ذریعہ کے مطابق کم وسائل سے بھارت کی فوجی قوت کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کا یہ کامیاب اور آزمودہ طریقہ ہے کہ دکھاوے کے بجائے،حقیقی ضروریات پر مبنی ہتھیاروں کے قابل اعتماد نظام تیار کئے جائیں۔ بابر سوم بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اگلا مرحلہ اب بابر سوم کی رینج میں اضافہ کرنے کا ہے۔ فی الحال یہ میزائل ساڑھے چار سو کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ اس رینج کو بتدریج ایک ہزار کلومیٹر تک آسانی سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق ایٹمی آبدوز پاکستان کی بنیادی ضرورت نہیں بلکہ اصل ضرورت یہ تھی کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے زمینی اور فضائی ڈلیوری نظاموں کے بعد جوابی ایٹمی حملہ کی تکون مکمل کرنے کیلئے زیر آب ایٹمی حملہ کی استعداد بھی حاصل کرے۔پاکستان نے اس استعداد کے حصول کیلئے بہت بڑے بجٹ کا منصوبہ شروع کرنے کے بجائے اپنے وسائل اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بحری بیرے میں ائر انڈیپنڈنٹ سسٹم کی حامل آبدوزوں کی موجودگی سے استفادہ کرتے ہوئے ایسا کروز میزائل اور ان کے ایٹمی وار ہیڈ ڈیزائن کئے جو فرانسیسی ساختہ اگستا نوے بی آبدوزوں کی تارپیڈو ٹیوبوں سے زیر آب بھی داغے جا سکتے ہیں۔ ائر انڈیپنڈنٹ پروپلشن سسٹم کی وجہ سے یہ آبدوزیں چالیس روز سے زائد مسلسل زیر آب رہ سکتی ہیں۔ خاموشی آبدوز کا اصل ہتھیار ہے تاکہ دشمن اس کا سراغ نہ لگا سکے۔ ایٹمی آبدوز کے برعکس، روایتی آبدوز شور نہیں مچاتی۔ چین سے آٹھ آبدوزیں ملنے کے بعد پاکستان کے پاس آبدوزوں کو ایٹمی کروز میزائلوں سے لیس کرنے کے آپشن مزید بڑھ جائیں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت بھارت کے پاس آئی این ایس چکرا اور آئی این ایس اریہانت نامی دو ایٹمی آبدوزیں موجود ہیں۔