لاہور ( رپورٹ:شہزادہ خالد)لاہور میں گاڑیوںکی بھرمار سے فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ صوتی آلودگی میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے۔ بسوں، ویگنوں، رکشوں ، کاروں اور موٹرسائیکل سواروں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی گاڑیوں میں من پسند ہارن لگوا لئے ہیں۔خطرناک اور تیز آواز والے ان ہارنوں کے باعث لاہور شہر کی صوتی آلودگی کی شرح قابل برداشت حد سے خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔شورکی قابل برداشت حد 71 ڈیسبل ہے جبکہ لاہور میں شور، صوتی آلودگی 92 ڈیسبل ہو گئی ہے جس سے شہریوں کا سکون تباہ ہو گیا ہے اور وہ ذہنی مریض ہو رہے ہیں۔ اس صوتی آلودگی کی وجہ سے ہسپتالوں میں پڑے مریض شدید متاثر ہو رہے ہیں۔عدادو شمار کےمطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں آبی آلودگی اور فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ صوتی آلودگی نا قابل برداشت حد تک خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق شور کی قابل برداشت حد کے بعد 75 ڈیسیبل تک لوگ بیمار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کی رپورٹ کے مطابق بھی لاہور میں صوتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اس صوتی آلودگی سے شہری ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف لاہور کی متعدد فیکٹریوں کے زہریلے پانی کو بغیر واٹر ٹریٹمنٹ کے نہروں میں بہا دیا جاتا ہے جس سے عوام تیزی سے، ہیپاٹائیٹس، بلڈ پریشر، سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے۔گذشتہ برس سپریم کورٹ نے ملک بھر کے حوالے سے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق 743 نوٹس جاری کئے ، 603 ماحولیاتی تحفظ آرڈرز جاری کئے اور اب بھی 70 سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں۔لاہور سمیت 7ضلعوں میں آلودگی سے محفوظ رہنے کی ورکشاپس کرائی گئیں۔ 2016 ءکی پہلی ششماہی میںسپریم کورٹ کی جانب سے رپورٹ طلب کئے جانے پر پنجاب اور سندھ حکومت کی جانب سے رپورٹ جمع نہ ہوسکی جس پر فاضل عدالت نے سخت احکامات جاری کئے اور پیش رفت رپورٹ طلب کی گئی۔ کے پی کے حکومت کی رپورٹ کے مطابق 33سکیموں کو قانون کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔2801 گاڑیوں کو جرمانے ،2281 گاڑیاں بند کی گئی ہیں 7135 گاڑیوں اور دیگر معاملات میں بہتری لائی گئی اربوں درخت لگانے کیلئے 19کروڑ 20لاکھ رپے رکھے گئے۔ بلوچستان حکومت کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں تین رکنی بینچ کو بتایا گیا کہ ماحولیاتی ٹربیونل میں 106 مقدمات کے چالان جمع کرا دیئے گئے ۔ یہ مقدمات ہسپتالوں ، لیبارٹریز ، کرشنگ پلانٹس ، سپیشل ری رولنگ ملز اور دیگر شامل ہیں۔ ٹربیونل نے 50مقدمات نمٹا دیئے ہیں۔ پبلک پارکس میں اضافہ کیا گیا ہے درخت لگائے جارہے ہیں۔