اس رزق سے موت اچھی

Jan 12, 2018

ربیعہ رفیق

12ارب روپے کی لاگت سے لاہور کے سیف سٹی پراجیکٹ کو پنجاب حکومت، سیف سٹی اتھارٹی، چینی کمپنی ہواوے کی مشترکہ کاوشوں سے ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا ہے۔ لاہور کے 6 میں سے 5 ڈویژن میں یہ منصوبہ مکمل طورپر آپریشنل ہو چکا ہے جبکہ چھٹے اور آخری ڈویژن میں تیزی سے کام جاری ہے اور رواں ماہ کے آخر تک پورے 6 ڈویژن میں یہ منصوبہ پوری طرح آپریشنل ہوجائے گا۔ اس منصوبے کے تحت 8 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی شناخت کا خودکار نظام، ای چالان، ریڈ لائٹ مانیٹرنگ سسٹم اور جدید کمیونیکشن نظام نافذ کیا گیا ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ پولیس کے صدیوں پرانے روایتی اورفرسودہ سسٹم کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے حوالے سے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے قیام امن، ایمرجنسی سروسز کی فراہمی، دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے سیف سٹی پراجیکٹ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے اب لاہور کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوگا جو شہریوں کے جان ومال کے تحفظ اورجرائم کنٹرول کرنے کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی سے مزین ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ سے ٹریفک مینجمنٹ، ڈولفن، ہیلتھ کیئر کے حوالے سے مربوط حکمت عملی کے تحت کام ہو گا اور ایک کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کو امن اور کاروبار کو تحفظ نصیب ہو گا۔ لاہور کیساتھ پنجاب کے دیگر چھ شہروں راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ، سرگودھا اور بہاولپور میں بھی سیف سٹی پراجیکٹ پر کام شروع ہو چکا ہے اور ان شہروں میں بھی تیزی سے ان منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔ 

پنجاب کے دل لاہور میں پاکستان کے کسی بھی صوبے کے لگائے جانے والے پہلے سیف سٹی پروگرام کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے ٹرمپ کے بیان کو زیربحث لاتے ہوئے اقبال کے اشعار پڑھے اور کہا کہ ٹرمپ کا ٹویٹ بہت افسوسناک اور ہماری عزت نفس کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور ہمارے قومی وقار کے منافی ہے۔ امریکی صدر کا بیان ہماری شناخت پر طمانچہ ہے۔ ہمیں اس ٹویٹ کا بہت سوچ سمجھ کر خودداری، دلیری اور سمجھداری سے جواب دینا ہے۔ انہوںنے کہا کہ میں مسیحا نہیں ہوں لیکن بطور پاکستانی اور خادمِ پنجاب درجنوں مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ قومیں مانگے تانگے، ادھار اورقرض کی مے سے عزت و وقار کیساتھ زندہ نہیں رہتیں بلکہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں۔ مانگے تانگے کی زندگی قائد و اقبال کے افکار سے مطابقت نہیں رکھتی۔ دنیا میں کوئی قوم اور معاشرہ ایسا نہیں ہے جس نے ادھار اور قرض کے بل بوتے پر ترقی کی ہو۔ جنگوں میں بدترین شکست کھانے والی قوموں نے بھی انتھک محنت، اجتماعی کاوشوں اور مثبت سوچ کیساتھ ترقی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 70سال سے ہم طعنے سنتے آ رہے ہیں جو ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں، وزرائ، گورنرز، میڈیا ہاؤسز، دانشوروں اور ہر پاکستانی کو فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں عزت کی زندگی گزارنی ہے یا پھر یونہی طعنے سہنے ہیں۔ آج بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیں اور خود انحصاری کی منزل کے حصول کیلئے تہیہ کریں۔ ہمیں کسی سے لڑائی نہیں لڑنی بلکہ پوری قوم کو مشاورت اور مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہے اور امریکہ کو جواب دینا ہے کہ ہمیں آپ کے پیسے، قرض یا گرانٹ کی ضرورت نہیں، ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے لیکن ملک و قوم کی عزت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اگر ہم نے ماضی میں غلطیاں نہ کی ہوتیں تو ہمیں آج 33 ارب ڈالر کے طعنے نہ سننے پڑتے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے چار سال میں ہم نے اپنے وسائل سے بجلی کے منصوبے لگائے ہیں اورچین نے بھی سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبوں میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوںنے کہا کہ مجھے طعنہ دیا جاتا ہے کہ میں چین کا سفیر ہوں مجھے اورپوری پاکستانی قوم کواس پر فخر ہے کیونکہ چین پاکستان کا مخلص دوست ہے اورجونہی امریکی صدر کی پاکستان کو دھمکی آئی تو چین سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا۔ انہوںنے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں ایسی امداد اوربھیک سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے جس سے ہماری عزت و وقار پر حرف آئے، ہمیں طعنے دیئے جائیں اورشرمندہ کیا جائے، ہماری بے توقیری ہو۔ اشرافیہ کو فیصلہ کرنا ہے کیونکہ عوام نے تو کبھی پاؤنڈ اور ڈالر نہیں دیکھے وہ تو دن رات محنت کر کے رزق حلال کماتے ہیں جبکہ پائونڈ اور ڈالروں سے واسطہ تو اشرافیہ کا پڑتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ 70سال گزرنے کے بعد بھی کوئی جرات مندانہ اوراچھا فیصلہ کر لیا جائے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن یہ مشکل صرف اشرافیہ کیلئے ہے۔ عام آدمی، محنت کش، مزدور، استاد اورغریب طبقات کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ انہوںنے کہا کہ 20 ارب روپے کی لاگت سے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کا منصوبہ لگایا جارہا ہے جبکہ 12ارب روپے سے سیف سٹی پراجیکٹ کا منصوبہ مکمل کیاگیا ہے۔ یہ وسائل پنجاب حکومت نے اپنے خزانے سے فراہم کیے ہیں۔ زندگی کو بدلنے کیلئے بڑا فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مل بیٹھ کر مشاورت کے ساتھ سوچ سمجھ کرفیصلہ کریں اور امریکہ سے کہہ دیں کہ جو پیسے دیئے ہیں اس کا حساب لے لیں اور آئندہ ہم ایسی امداد سے باز آئے۔ انہوںنے کہا کہ میں کسی سے جنگ یا لڑائی کی بات نہیں کرتا، لڑائی تو ہمیں اپنے آپ سے اوراس فرسودہ نظام سے کرنا ہے۔ اس نظام کو بدلنا ہے جس کی بدولت ہمیں گزشتہ 70 سال سے طعنے مل رہے ہیں۔ میں یہ باتیں کر کے کوئی سیاسی دکانداری نہیں چمکا رہا بلکہ بطور ایک پاکستانی کے یہ میرے دل کی آواز ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے حصول کیلئے لازوال قربانیاں اس لئے نہیں دی گئی تھیں کہ کوئی ہماری بے توقیری کرے، ہماری پگڑی اچھالے اورہمیں بے عزت کرے، اب ہمیں انہیں واضح پیغام دینا ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے سیکھ لیا ہے اوراب ہم آئندہ ایسی غلطی نہیں کریںگے۔ انہوںنے کہا کہ محنت، امانت اور دیانت کو شعار بناکر ترقی کاسفر طے کیا جاسکتا ہے اور خود انحصاری کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ امریکی صدر کے بیان نے پوری قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور ہمیںایک موقع ملاہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے اجتماعی فیصلے کریں۔ اسی طرح قومیں آگے بڑھتی ہیں اوراپنی منزل حاصل کرتی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اجتماعی سوچ اور بصیرت کے ساتھ فیصلے کر کے آگے بڑھیں۔ وزیراعلیٰ کی یہ تقریر ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے جس کو سن کر ہی ہم حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن اور صحیح معنوں میں آزاد ہو سکتے ہیں۔

مزیدخبریں