بھارت، افغانستان، اسرائیل اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں شب و روز پاکستان کیخلاف برسرپیکار ہیں اور کسی بھی طرح پاکستان کو غیرمستحکم کرکے اس کا وجود دنیا کے نقشے سے مٹانا چاہتی ہیںلیکن الحمد اللہ آئی ایس آئی اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے وہ اپنے گھنائونے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام اور اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف دنیا کے درجنوں ممالک پاکستان کی بے پناہ خوبیوں، وسائل اور چین پاکستان اکنامک کاریڈور جیسے منصوبوں سے متاثر اور اسکے ساتھ تجارت و سرمایہ کاری کے تعلقا ت بڑھانے کی شدت سے خواہش رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کیخلاف گھنائونی سازشیں ہوں یا پھر دنیا بھر کے تاجروں و سرمایہ کاروں کی گہری ہوتی دلچسپی ، دونوں ہی نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں کچھ تو ایسی خاص بات ہے کہ جس کی وجہ سے دنیا بھر سے دوستوں اور دشمنوں کی نظریں ہم پر گڑی ہیں لہذا ہمیں اپنی اس خوبی بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے جس کا احساس بھارت ، افغانستان ، اسرائیل اور امریکہ جیسے دشمنوں اور چین و ترکی جیسے دوستوں نے ہمیں بڑی اچھی طرح دلا دیا ہے۔ قدرتی وسائل ہوں یا پھر جغرافیائی حیثیت، پاکستان ہر حوالے سے ہی لاجواب ہے ۔ آبادی کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا جبکہ رقبے کے حوالے سے 36واں بڑا ملک ہے جہاں بے پناہ معدنی وسائل اور عنایاتِ خداوندی ہیں ۔ اسکے باوجود معاشی طور پر پاکستان اقوام عالم میں کوئی ممتاز مقام نہیں رکھتاکیونکہ دشمنوں نے بم دھماکوں اور خودکش حملوں کیساتھ پاکستان کو معاشی دہشتگردی کا نشانہ بھی بنائے رکھا ہے جس سے چھٹکارا پائے بغیر پاکستان عالمی سطح پر ایک فیصلہ کن لیڈر کا کردار ادا کرنے سے محروم رہے گا ۔ جس طرح ایک پانچ ٹن کے ہاتھی پر بیس ٹن کا بوجھ لاد دیا جائے تووہ ایک بھی قدم اٹھانے سے قاصر رہے گا ٹھیک اسی طرح پاکستان کی کمر پر بھی 85ارب ڈالر کے قرضوں کا بوجھ ہے جو اسے آگے نہیں بڑھنے دیتا، اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا اور جان چھڑائی جائے۔ اسکے علاوہ صرف زراعت، مینوفیکچرنگ سیکٹر، تعلیم، پانی ، انسانی وسائل ، معدنیات ،صحت عامہ ،غیرترقیاتی اخراجات میں کمی اور ٹیکس وصولی نظام کی بہتری کو منصوبہ بندی میں شامل کرلیا جائے تو سب جلد ٹھیک ہوجائیگا۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور اکنامک گروتھ ڈائریکٹ اسی سے منسلک ہے۔ زراعت کی بہتری کیلئے کسانوں کی حالت درست کی جائے جو فی الوقت کافی بدحال اور زرعی پیداوار، بالخصوص گنا سر پر اٹھائے سرمایہ داروں کی بے رخی پر نالاں ہیں۔ پانی کی قلت پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ بھاشاڈیم سمیت دیگر پراجیکٹ پائپ لائن میں ہیں جنہیں جلد مکمل کرنا ہوگا، آئندہ بجٹ میں بھی زور پانی کے منصوبوں پر بھی ہوناچاہیے۔ تعلیم کے شعبے میں جس قدر دلچسپی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی ہے اتنی شاید اور کسی کی نہ ہوگی، پنجاب میں فروغ تعلیم کیلئے وہ تن، من اور دھن سے سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان کے معدنی وسائل کی حقیقی مالیت کا اندازہ لگانا چاہیں تو شاید یہ ممکن نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں اس دولت سے فائدہ غیرملکی کمپنیاں فائدہ اٹھاتی رہیں اور اْن غداروں کے تعاون سے جن کے گھروں پر چھاپے مارکر بوریوں میں بھرے کروڑوں روپے برآمد کیے گئے۔ یہ پاکستان کا خزانہ ہے اور پاکستان کی ترقی کیلئے ہی استعمال ہونا چاہیے۔ اس مقصد کیلئے اپنے نوجوانوں کو پوری طرح تربیت دی جائے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ کیا جائے۔ سونے پر سہاگہ کے مصداق معدنیات کو خام صورت میںایکسپورٹ کرنے کے بجائے ویلیوایڈیشن کی جائے جس سے کئی گنا زیادہ فائدہ ہوگا۔ یہ چند اقدام ہی پاکستان کو خوشحالی کی بلندیوں پر لے جائیں اور دشمنوں کے دانت کھٹے کردیں گے۔