پروین سجل سے میری پہلی ملاقات کئی برس پہلے چوپال کے اجلاس ہوئی۔ سخت سردی کے دن تھے اور مجھے وہاں ایک افسانہ پڑھنا تھا۔ اس وقت میں پروین سجل کے صرف نام سے واقف تھی مگر ان سے ملاقات کاموقع کبھی نہیں ملا تھا۔ اجلاس شروع ہوا تو چند لمحوں میں ایک قد آور شخصیت ہال میں داخل ہوئیں اورایک طرف بیٹھ گئیں۔ میں بار بار ان کی طرف دیکھتی مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پروین سجل ہیں۔ انکے چہرے پر متانت اور سنجیدگی کا پر تو تھا۔جیسا کہ انکے نام سے ظاہر ہے… پروین یعنی ’’ستاروں کا جھرمٹ‘‘ اور سجل یعنی ’’عمدہ‘‘ ستاروں کے جھرمٹ میں رہ کر بڑی عمدگی کے ساتھ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کو تلاش کرنے والی پروین سجل ممکن، مقال، حطیم اور دیباچہ جیسے منفرد شعری مجموعوں کی پہلے ہی سے تخلیق کار ہیں اورآج ہم ان کی پانچویں کتاب آپﷺ کی رونمائی کرنے جا رہے ہیں۔ میں اس مبارک موقع پرتہہ دل سے پروین سجل کو مبارکباد پیش کرتی ہوں اور میں اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں کہ سجل نے مجھے اپنی کتاب آپﷺ پراظہار خیال کا موقع فراہم کیا۔پروین سجل کی یہ کتاب 248 صفحوں کی ایک طویل نعتیہ آزاد نظم ہے اور اسے عمدہ کتاب کہنا غلط نہ ہوگا۔ پروین سجل کی زندگی میں روحانی انقلاب کیسے آیا یقینا یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔انسانی زندگی میں بہت سے انقلاب آتے ہیں جب آپکا قلب مجروح ہوتاہے آپکی روح میں زلزلے آتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب روح بے چین ہونے لگتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھنے لگتا ہے، محبت کی کیفیت اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے اور آپ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اللہ اور رسول اللہﷺ کی رحمت آپ پر بارش کی طرح برسنے لگی ہے۔ ایسی صورت میں آپ وہ کچھ پالیتے ہیں جسکا ادراک اس سے پہلے ناممکن نظر آتا ہے۔ لگتا ہے کچھ ایسی ہی کیفیات سے سجل گزری ہیں اور خوش قسمتی سے وہ لمحے انہوں نے Capture کر لئے ہیں اور یہی وہ لمحے ہیں جن میں کتاب آپﷺ ظہور پذیر ہوئی۔ اگر میں اپنے آپ پرغور کروں تو کہہ سکتی ہوں کہ مجھ جیسا انسان ساری زندگی بھی لکھتا رہے تو شاید اتنی طویل نظم وہ بھی نعتیہ لکھنے کی سعادت حاصل نہ کرسکے۔ اس ضمن میں، میں معروف نعت گو شاعر اعظم چشتی کا ایک شعر آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں:
حسرتیں اُڑ گئیں دھواں بن کر
لب کشائی کا حوصلہ نہ ہوا
پھر آپؐ کی محبت و عقیدت میں نعت گوئی آپؐ کی حیات مبارکہ میں حضرت عمر فاروق، حضرت علی، حضرت حمزہ، حضرت ضرار، حضرت زید، حضرت کعب بن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دور حیات میں حضرت حسان بن ثابتؓ کو باقاعدہ شاعر دربار رسولؐ کا خطاب دیا گیا تھا۔
عجب منظر عجب منظر… ذرا دیکھو
اور ایسے میں… اور ایسے میں
عجب اک اور منظر کیا
فلک اقلیم سے آگے… تک پھیلا
حلیمہ جی… ذرا دیکھو
فرشتوں اور حوروں کے عجب رفتار تیزی میں اٹھے جو
پاؤں کہتے ایڑیاں ٹخنے… اطاعت کو
قدم بوسی میں آگے… بڑھنے کی خاطر
عجب ٹکراتی ہیں اک دوسرے سے یوں
کہ جیسے کھلتے ہوں تھال میں رنگوں بھرے کھنچے
اور ان کی جلترنگ ایسے
عجب ہے شادمانی… جوش فرماں نے
کہوں کیا کیا…سجل کیسے
نہ ہی تحریر ہو پائے … نہ ہی تحریر ہو پائے
اچھے شعر کی بنیادی خوبی تو یہی ہوتی ہے کہ شاعر کا لکھا ایک ایک لفظ آپ کے ذہن کی کتاب میں نقش ہو جائے۔ دل اور روح کو براہ راست چھو جائے۔ سجل کی اس طویل آزاد نعتیہ نظم کا ایک ایک پیرا ہمیں آگہی عطا کر رہا ہے، نفس مضمون پر غور اور محسوس کرنا سکھا رہا ہے حقیتاً ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ان کا یہ کلام بنیادی طور پر ان کی بے پایاں تخلیقی صلاحیتوں سے آگہی ان کی آزاد نظم کے اشعار کی ساخت کا قرینہ، جذبات و احساسات کی سچائی بے ساختہ منظر نامہ پیش کرتی ہے پروین سجل نے فکری افق پر نئے چراغ روشن کر دیئے ہیں ان کی طویل نظم آپؐ انکے تازہ آہنگ کے حوالے سے ان کی پہچان ہے ان کا احساس چوٹ کھایا ہوا بھی ہے مگر نت نئے رنگوں سے نکھرا اور بھرا ہوا بھی ہے ان کی زندگی کا سفر حادثات و سانحات کے ساتھ ساتھ جستجو آرزو کا سفر ہے اور یہی انسان کا مقدر ہے۔اب آخر میں پروین سجل کی کتاب کا اختتامیہ پیش کر کے اجازت چاہوں گی ملاحظہ فرمائیے۔
کہ بے شک وہؐ… ہی ٹھہرا ہے
کہ بے شک وہؐ… ہی ٹھہرا ہے
کہ شکرایزد… شکرانہ
چگونہ ما… وظیفہ جاں
حلیمہؓ جاں… ٹھہرا ہے
محمدؐ آپ ٹھہرے کیا۔
زمانہ ہر… زمانہ مصطفےؐ ٹھہرا
زمانہ ہر… زمانہ مصطفےؐ ٹھہرا
کہ یعنی کیا… سجل جی کیا
محمدؐ آپ ٹھہرے ہیں
محمدؐ آپ ٹھہرے ہیں
فقط بس آپ ٹھہرے ہیں۔
آپ ﷺاور پروین سجل کی مدح سرائی
Jan 12, 2019