صوبہ سندھ کے علاقہ تھرپارکر میں غذائی قلت کے باعث نومولود اور کمسن بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے غذائی قلت کے نتیجے میں علاج معالجے کی مناسب سہولتوں کے فقدان کے باعث دل ہلا دینے والے ایسے افسوس ناک واقعات عامۃ الناس سرد آہ بھرنے کے اور کچھ کرنے کا راستہ نہیں دیکھتے خیبر سے کیماڑی تک تھرپارکر کے علاقوں میں ادھ کھلے غنچوں کے مرجھانے کا سلسلہ اس قدر دراز ہوگیا ہے کہ ان کی تعداد اب تک تین ہندسوں سے بڑھ کر چار ہندسوں تک پہنچنے والی ہے۔ اس حوالے سے زنجیر عدل بھی ہلی۔ ایوانِ عدل کی طرف سے بھی اپنی سی کوششیں ہوئیں تھرپاکر کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کے محروم ومجبور اور اپنے وطن میں علاج معالجے اور خوراک کی اعلیٰ نہ سہی ادنٰی سی سہولتوں سے محروم مفلس و قلاش عوام سمیت ملک بھر میں ان جیسے کروڑوں بے نوا لوگوں کی طرف سے آئے دن جو صدائے درد بلند کی جاتی ہے ایوان اقتدار کے مکینوں میں براجمان لوگوں میں کسی صاحبِ دل میں قوم کے لئے اور بالخصوص قوم کے بے نوا لوگوں کے لئے وہ درد پیدا نہ ہوا جس کا اظہار عام انتخابات کے موقع پر ان کی زبان سے بار باردہرایا جاتا اور اسے بار بار سنا جاتا۔معمول کے مطابق مٹھی میں کمسن بچوں کی اموات نے وہاں کے غریب لوگوں میں پھر سراسمیگی کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے جبکہ مٹھی کے ہسپتال میں ایک درجن سے زائد بچے موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ روزانہ ایک دو نہیں بلکہ آٹھ آٹھ ماؤں کی گود اجڑ رہی ہے گزشتہ برس گزر گیا نئے سال کا سورج طلوع ہوئے بھی دو ہفتے ہونے کو ہیں مگر تھر کے غریب و بے کس عوام میں جو صف ماتم بچھی تھی اربابِ حکومت کی طرف اسے لپیٹ کر بچوں کی اموات کو روکنے کے کوئی موثر اقدامات نہیں کئے جا سکے اگر ایسا ہوتا تو یہ اقدامات نظر آتے ایسے بیانات بھی کرسی اقتدار پر براجمان لوگوں کے پرنٹ میڈیا کی زینت بنے کہ حکومت بچوں کو ہر قسم کے استحصال سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے مگر ایسی تمام امیدیں نقش برآب ثابت ہوئیں تھر ضلع پارکر میں غذائی قلت اور وائرل انفیکشن سے چوبیس گھنٹوں کے دوان آٹھ آٹھ نوزائیدہ بچے جان کی بازی ہارتے اور والدین کو سوگوار کرتے چلے گئے۔ گزشتہ سال صرف سول ہسپتال مٹھی میں موت کی نیند سو جانے والے نوزائیدہ بچوں کی تعداد چھ سو سے زائد تھی جس میں گزشتہ دنوں معتدبہ اضافہ ہو چکا ہے سوگوار خاندان برسہا برس سے یہ چیخ و پکار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ تھر کے پسماندہ علاقوں میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے جس کے باعث انہیں طویل سفر طے کر کے مٹھی کے سول ہسپتال میں آنا پڑتا ہے اس قسم کی اذیت ناک صورت حال میں تھر کے علاقوں میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح پینے کے لئے صاف پانی کی عدم دستیابی نے بھی خطرناک اور مہلک بیماریوں میں عوام کو مبتلا کر رکھا ہے جس کے تدارک کے لئے اربابِ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ بلاشبہ ضلع تھر کے وسیع و عریض علاقے بھی مستقبل کے نوزائیدہ معماروں کی غذائی قلت اور انفیکشن وائرل سے اپنی جان ہارنے کا جو سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے صوبہ سندھ کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کے عوام میں طبی سہولتوں کی بھرپور فراہمی وہاں کی صوبائی حکومت کا اولین فریضہ ہے تمام حکومتوں کو ذاتی نام ونمود کی خاطر صوبے کے بڑے بڑے منصوبوں پر کھربوں اربوں روپے خرچ کرنے سے قبل غریب مفلوک الحال علاج معالجے کی سہولتوں کو ترستے بھوکے ننگے عوام کی ایسی ضروریات کو مہیا کرنے کو اولیت دینی چاہیے جس سے ان قلاش عوام کے جسم اور روح کا رشتہ بحال رہے۔ ان غریب عوام کے ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں زندگی کی تمام تر سہولتوں اور آسائشوں سے لبریز جام زندگی سے لطف اندوز ہونے والوں کو چاہیے تھا کہ پہلی فرصت میں قوم کے بہتر مستقبل اور حال کی بہتری کے لئے اپنی تمام تر توجہ مبذول رکھتے۔ انہیں تھرپاکر ایسے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کو اولیت دینا ہوگا۔ ایسے حالات کسی بھی ملکی علاقے میں رونما ہو سکتے ہیں کیونکہ جہاں تک پینے کے پانی کی عدم دستیابی کا تعلق ہے اس قسم کے ان گنت علاقے صوبے کے ہر ضلع میں موجود ہیں جہاں لوگ اور جانور ایک ہی جوہڑ نما تالاب سے پانی پیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہاں کے عوام جو عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں پر مشتمل ہیں مہلک اور خطرناک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس قسم کی سنگین صورت حال سے عوام کو بچانا ارباب حکومت پر عائد ہوتا ہے ایسے عوام خواہ صوبہ خیبر پتخونخوا کے ہوں، سندھ اور پنجاب، بلوچستان یا فاٹا سے تعلق رکھتے ہوں یقیناً اربابِ حکومت محو خواب نہیں ہیں جیتے جاگتے ہیں حالات و واقعات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے ذریعے یقیناً نہ صرف ملک کے دیگر معاملات بلکہ بالخصوص تھرپارکر کے انتہائی کربناک حالات سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ مگر اس آگاہی کا کیا فائدہ اگر اپنے ہم وطنوں کی اذیتوں سے نجات دلانے کے لئے قانونی موشگافیوں کو بالائے طاق رکھ کر فی الفور کوئی ایسے عملی اقدامات نہ اٹھائے جائیں کہ اپنے دکھوں کے مداوا کے لئے تھر کے بے نوا پاکستانیوں کی آئندہ نسلیں ان کے سامنے تڑپ تڑپ کر موت کی آغوش میں جانے سے محفوظ رہ سکیں۔ نوزائیدہ بچوں کا خون ناحق مٹھی کے قبرستانوں کی کیوں نظر ہوتا جا رہا ہے اور ان کا خون کس کی گردن پر ہے یا ہوگا؟ یہ پوری قوم بالخصوص ہر سطح کے ارباب اقتدار کے لئے لمحہ فکریہ ہے!