ایران کے طالبان سے رابطوں پر اشرف غنی حکومت برہم‘ بات چیت امن کیلئے ہے : جوادظریف

نئی دہلی/کابل(صباح نیوز)ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ہمارے طالبان کے ساتھ انٹیلی جنس رابطے موجود ہیں کیوں کہ ہمارے کچھ سرحدی علاقے ان افغان علاقوں سے ملتے ہیں جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ دوسری جانب افغانستان نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے اندرونی امور میں ایران کی واضح مداخلت قرار دیا ۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق بھارت کے دورے کے دوران دیئے گئے انٹرویو میں ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ مستقبل کے افغانستان میں طالبان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا البتہ اس حوالے سے فیصلہ افغان عوام کو کرنا ہے۔ ہمسایہ ملکوں میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ طالبان کو بالادستی حاصل ہو کیونکہ یہ خطے کے مفاد میں نہیں ہے، ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ طالبان کا یہ کردار انتہائی اہم نہیں ہونا چاہیے۔جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ہمارے طالبان کے ساتھ انٹیلی جنس رابطے موجود ہیں کیوں کہ ایران کے کچھ سرحدی علاقے ان افغان سرحدی علاقوں سے ملتے ہیں جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں، طالبان کے زیر کنٹرول افغان ایران سرحدی علاقے میں سلامتی کی ضرورت ہے۔دوسری جانب افغانستان نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ افغان وزارت خارجہ نے جواد ظریف کے بیان کو افغانستان کے اندرونی امور میں ایران کی واضح مداخلت قرار دیا ہے۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ ادریس زمان نے ٹویٹ میں کہا کہ 2ریاستوں کے درمیان تعلقات سے ہٹ کر طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطے دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کو کمزور کریں گے۔ لندن سے این این آئی کے مطابق افغانستان کی حکومت نے ایرانی عہدیداروں کی جانب سے شدت پسند گروپ طالبان کے حوالے سے بیانات پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کو طالبان کی ترجمانی نہیں کرنی چاہیے۔عرب ٹی وی کے مطابق افغان ایوان صدر کے ترجمان شاہ حسین مرتضوی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ایرانی عہدیدار طالبان کی زبان کیوں بول رہے ہیں کیا ایرانی عہدیدار طالبان کے ترجمان بن گئے ۔ افغان ایوان صدر کی طرف سے شدید رد عمل کے بعد ترجمان کا بیان فیس بک سے ہٹا دیا تھا۔ گذشتہ ہفتے کے روز ایران کے نائب وزیرخارجہ عباس عراقجی نے افغانستان کا دورہ کیا اور صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد طالبان کا ایک وفد ایران پہنچا۔ ایرانی حکومت کا کہناہے کہ طالبان کے وفد کی آمد کا مقصد افغانستان میں امن بات چیت کو آگے بڑھانا ہے۔ایران اور طالبان کو ایک دوسرے کا حریف سمجھا جاتا تھا مگر گذشتہ کچھ عرصے سے دونوں نے اس تاثر کو کافی حد تک زائل کیا ہے۔ طالبان اور ایران کے درمیان پس چلمن رابطے اب اعلانیہ رابطہ کاری میں تبدیل ہوگئے ۔ کابل میں تعینات ایرانی سفیر محمد رضا بہرامی نے ایک بیان میں تسلیم کیا کہ تحریک طالبان اور ایران کے درمیان برہ راست رابطے 22 مئی2018ءکے بعد سے شروع ہوئے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان رابطوں کے باوجود تعلقات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ہم تحریک طالبان کی سیاست کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔
ایران/ طالبان

ای پیپر دی نیشن