کراچی سے واپس اسلام آباد جاتے ہوئے جہاز پر دوران سفر کئی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات ہوئی۔ میرے دائیں جانب بیٹھے ایم این اے سید آغا رفیع اللہ نے ’’ہماری سیاسی اخلاقیات‘‘ پر سوال کر دیا کہ ’’ہمارے ملک میں اتنا سیاسی اختلاف کیوں ہے اور ہماری سیاسی قیادت نیشنل سکیورٹی سمیت تمام قومی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں اب تک کیوں ناکام ہے۔‘‘ مجھے کراچی سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان رکن قومی اسمبلی کے تفکر پر خوشی ہوئی اگر چہ میں نے ان کے سوالات کے جواب دیدیئے تا ہم میں اپنے خیالات کو کالم کی صورت میں بھی پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
میرے خیال میں قومیں ہمیشہ اجتماعیت‘ اتفاق اور عمل سے ہی عروج پاتی ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اس ملک کی ترقی کی بنیاد‘ تین الفاظ اتحاد‘ ایمان اور تنظیم کو ہی قرار دیا تھا۔ لیکن افسوس کہ بحیثیت قوم ہم نے ان تینوں ’’جادوئی الفاظ‘‘ کو نظر انداز کر دیا۔ ہم قائد کے اصولوں اور مذکورہ بالا تین الفاظ (اتحاد‘ ایمان‘ تنظیم) پر عمل کرتے تو اس سے ہماری اجتماعی قسمت بدل جاتی لیکن ہم نے بحثیت مجموعی قومی مفادات کی اہمیت کو کھو دیا۔ یہ قومی المیہ ہے کہ ہم قائد کے اصول اپنانے میں ناکام رہے جس کے نتیجہ میں ہم نیشنل ایکشن پلان سمیت معیشت اور خارجہ پالیسی میں بھی کسی سمت کا تعین نہ کر پائے۔ ہم بطور سیاستدان‘ بیورو کریٹس‘ تاجر‘ طلبہ حتی کہ عوام بھی نظم و ضبط سے باہر ہیں اور کسی بھی مسئلہ پر بمشکل ہی ایک صفحے پر نظر آئے ہونگے۔
قوم کی اجتماعی طاقت پارلیمنٹ سے بنتی ہے لیکن یہاں بھی قوم کی رہنمائی کرنے اور عوامی مسائل حل کرنے کے لئے قانون سازی کے لئے شاید ہی نظم و ضبط کا مظاہرہ ہو۔ لگتا ہے کہ حکومت سمیت تمام جمہوری اداروں کے اعتماد کھو جانے کے باعث عوام سخت مایوس ہیں۔ یہ وقت انتہائی اہم ہے کہ ہم عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کو مورود الزام ٹھہرانے کی بجائے قومی اتفاق رائے پیدا کریں کیونکہ اعتماد صرف دیانتدارانہ رویے اور شفافیت سے ہی پروان چڑھتا ہے۔
یہاں مصنفانہ فوجداری نظام اور سیاسی ضابطہ اخلاق سے قوم کو متحد کرنے اور آگے لے جانے کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب قانون کی حکمرانی ہو گی‘ فوری اور سستے انصاف تک عام آدمی کی رسائی ہو گی اور قانون کی حکمرانی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کرپشن اور سیاسی اثرورسوخ سے مکمل طور پر پاک نہ کر دیں۔
چین‘ جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ملک مذکورہ بالا تین الفاظ کے جادوئی اثر کا نیشنل سکیورٹی پروگرام کے ساتھ تجربہ کر چکے ہیں۔ ان اقوام اور ملکوں کا نظم و ضبط‘ قومی سلامتی اور داخلی اتحاد پر کبھی بھی سمجھوتہ نہ کرنا مثالی ہے۔
جب سے ہم نے اپنے قومی اداروں کی پشت پناہی کی بجائے ان کو متنازعہ بنانا شروع کر دیا ہے اس نے ہماری قومی سلامتی کو بری طرح (مجروح کیا) ’’ڈنٹ‘‘ ڈال دیا ہے جس سے پاکستان مخالف دھڑوں کی طرف سے عجیب و غریب آوازیں اٹھتی ہیں۔میں خود بھی وزیر داخلہ اور ایک قانون نافذ کرنے والے کی حیثیت سے ایسے عناصر سے نمٹ چکا ہوں۔میں تو صرف تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہی کر سکتا ہوں کہ اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لئے سیاسی اختلافات ختم کر کے ہمیں اپنے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور قوم کو بے عیب پالیسیاں دینے اور سیاسی چارٹر کے لئے اجتماعیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
’’قومی سیاسی چارٹر‘‘ کے لئے ہمیں اجتماعی طور پر ساری توجہ ’’قومی سلامتی‘ قومی معیشت ‘ قومی خارجہ پالیسی اور قومی سیاسی اخلاقیات پر مرکوز رکھنی چاہئے۔ اس چارٹر کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے اور قومی مفاد کے طور پر نافذ کیا جائے۔ وطن عزیز کو مستحکم اور خوشحال بنانے کے لئے مذکورہ چارٹر وقت کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے اس ’’سیاسی قومی چارٹر‘‘ پرہم تمام سماجی طبقات اور عام آدمی کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ واضح اور قبول عام کا درجہ حاصل کرنے والی دستاویز بن جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن قوم کا یہ خواب پورا ہوگا۔ اس کیلئے میںسینیٹ میں بحث کیلئے ایک تحریک بھی پیش کروں گا اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کیلئے بھی ہائوس سے رجوع کیا جائیگا۔ (ترجمہ: ڈاکٹر شاہ نواز تارڑ)
قومی سیاسی چارٹر
Jan 12, 2020