امیر شہر بتا تو سہی ہمارا جرم کیا ہے؟

Jan 12, 2020

گلزار ملک

روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی، فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا۔چہرہ بتا رہا تھا اسے مارا ہے بھوک نے، حاکم نے یہ کہا کہ’’ کچھ کھا کے مرگیا۔‘‘ خیر یہ تو رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں۔غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو، امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔افلاطون نے کسی ترنگ میں کہا تھا کہ ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں، ایک امیروں کا ایک غریبوں کا، دونوں کے اخلاق و عادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس دانشور نے یہ بات جس تناظر میں کی تھی وہ آج کے دور میں بالکل درست ثابت ہو رہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر شہر میں محض دو نہیں بلکہ کئی کئی شہر آباد ہیں۔ امیروں کا شہر، غریبوں کا شہر، بہت غریب لوگوں کا شہر اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ غریب شہر دنیا کی سب سے مظلوم مخلوق ہے۔ اور امیر شہر انتہائی عجیب مخلوق ہے۔ غربت و افلاس یہ وہ مصائب ہیں جو ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اپنی اوقات یاد دلاتے رہتے ہیں ۔ ہمارے یہاں سڑکوں کو اونچی عمارتوں کو وسیع و عریض باغات و جنگلات کو جدید ٹیکنالوجی سے مزین موبائل فون، گاڑیوں کی چمک دمک کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔لیکن غور کیا جائے تو یہ سب فرضی باتیں ہیں۔ ان سے غریب کو کوئی سرو کار نہیں یہ تمام چیزیں غریب کی ایک وقت کی بھوک مٹا نہیں سکتیں اور ساتھ ہی اب تو غریب اور امیر کے ترازو میں بھی فرق نمایاں ہو گیا ہے۔ غریب اور امیر کو الگ الگ ترازو میں وزن کیا جانے لگا ہے ۔ امیر شہر آخر یہ تو بتا ’’ ہمارا جرم کیا ہے؟‘‘ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہتر سالوں میں غور کیا جائے تو گزشتہ ڈیڑھ سال میں عوام کس قدر بے بسی ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے برکتی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔جس کی فیض احمد فیض کے وہ اشعار جو غریب ، امیر ، عدلیہ اور حکمرانوں کے کردار اور ملکی حالات کی خوب عکاسی کر رہے ہیں: جو نذر قارئین ہیں۔
جس دیس سے مائوں بہنو ں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے وقاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں میں بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس کے مسجد مندر میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جان کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں ، سسکی نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں ، آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کی گلی کوچوں میں ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنت حوا کی چادر بھی داغ سے میلی ہو
جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا فقدان حلق تک جا پہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پر دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت مائوں سے بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفاء سے ناجائز کا م کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انسان وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر پر آواز اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے

مزیدخبریں