امریکی ایران جنگ بازی اور عمرانی کردار

امریکی ڈرون حملے میں عراق میں موجود ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی شہید ہو گئے تھے۔ ان کی نماز جنازہ پہلے عراق میں پڑھائی گئی اور پھر انکی میت کو ایران بھجوایا گیا۔ جہاں انکی نماز جنازہ میں لاکھوں ایرانیوں نے شرکت کی۔ نماز جنازہ میں ایرانی وزراء اور ایرانی صدر نے بھی پہلی صف میں کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کی اور اعلان کیا کہ ایران اس شہادت کیخلاف انتقامی کارروائی کریگا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ایرانی صدر خامنہ ای نے اعلان کیا کہ ہم واشنگٹن نے منہ پر طمانچہ ماریں گے اور عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل حملے کرینگے۔ پھر یوں ہوا کہ آٹھ جنوری کو ایرانی افواج نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر تیس میزائل حملے کئے۔ ایرانی اعلان کے مطابق اس جگہ کو میزائل حملوں سے نشانہ بنایا گیا جہاں سے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو شہید کیا گیا تھا۔ امریکی ائربیس پر پر تیس میزائل داغے گئے جن کے نتیجے میں اسی ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی۔ یہ حملہ صبح سویرے کیا گیا تھا۔ عراق میں موجود پاپولر موبلائزیشن فرنٹ نے بھی امریکی افواج کے انخلاء کیخلاف آپریشن شروع کر دیا ہے۔ امریکی حکومت 80 ہلاکتوں کی تردید کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ امریکی راڈار نے ایرانی پروازوں کا پتہ چلا لیا تھا اور میزائل حملوں سے قبل ہی امریکی فوجی وہاں سے نکال لئے گئے تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی فوج بہت طاقت ورہے اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ امریک فوجی اڈے کو معمولی نقصان ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اگر ایران وہشت گردی ختم کر دے تو علاقہ میں امن ہو سکتا ہے۔ جب تک میں صدر ہوں ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دوں گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں یہ بات واضح کی کہ تین جنوری کہ بغداد ایئر پورٹ پر ہونیوالے امریکی فضائی حملے میں اسرائیل کا کوئی کردار نہیں تھا۔ نہ ہی امریکی صدر نے اسرائیلی حکومت سے کوئی بات چیت کی تھی۔ فضائی حملے کا فیصلہ امریکہ کا اپنا تھا۔ اسرائیلی کو اس معاملے میں نہ گھسیٹا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں اپنے وزراء کو جنرل قاسم سلیمانی کے معاملے دور رہنے کی ہدایت کی اور انہیں بیانات دینے سے روک دیا۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی قانون کی پاسداری کرنے والی قوم ہے اور تہران جب بھی کوئی قدم لے گا تو وہ غیر موزوں نہیں ہو گا بلکہ جائز اہداف کیخلاف ہی ہو گا۔ جواد ظریف نے اعلان کیا کہ امریکہ نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا ہے۔ جس کے نہایت سنگین نتائج سامنے آئینگے۔ امریکی وزیر دفاع نے اس تذبدب کی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے عراق سے امریکی فوج کے انخلاد کی مکمل تردید کی ہے۔ اسکے جواب میں ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام لینے کی بات کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ امریکی حمایت یافتہ مقامات کو تباہ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ دھمکی کرمان شہر میں ہزاروں افراد کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے دی تھی۔ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکہ نے ایک اور غیر قانونی سفارتی اقدام اٹھایا ہے۔ امریکہ نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ تا کہ ایرانی وزیر خارجہ سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرنے سے روک دیا گیا ہے جہاں وہ سلیمانی کے قتل کے حوالے سے امریکہ مخالف مذمتی بیان دینا چاہتے تھے۔ اس پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اعلان کیا ہے کہ اب پراکسی وار نہیںہو گی۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ سرعام لیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ممکنہ ایرانی حملے کے جواب میں ایران کی فیصلہ ساز قیادت کو نشانہ بنانے دھمکیاں دیدی ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ اور ایران میں کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ایرانی پارلیمنٹ بھی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے اور امریکی افواج کو دہشتگرد تسلیم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اور وہ تمام امریکی افراد جنہوں نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی اجازت دی تھی انہیں دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اعلان کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کا جنرل قاسم کو قتل کرنے کے احکامات عالمی انسانی حقوق کیخلاف ورزی اور جرم ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو ایران کو دھمکیاں دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ امریکی صدر کو بیانات عالمی قوانین کیمطابق دینے چاہیں۔ امریکہ ایران کشیدگی اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ یقیناً عالمی جنگ کا روپ اختیار کر لے گی۔اب آتے ہیں پاکستانی حکومت کی طرف۔ حکومت نے ایران کیساتھ امریکی مظالم پر بیانات جاری کئے ہیں۔ پاکستانی حکومت کاامریکہ ایران ممکنہ جنگ میں کسی کے ساتھ فریق نہ بننے کا باضابطہ اعلان کیا جا چکا ہے اور یہ بھی باور کروایا جا چکا ہے کہ پاکستان ایران کیخلاف اپنی سرزمین استعمال ہونے کی قطعاً اجازت نہیں دیگا۔ تاہم امریکہ ایران جنگ شروع ہونے کی صورت میں اسکے منفی اثرات ہم پاکستان پر بھی مرتب ہونگے اور ممکنہ طور پر خطے کے تمام ممالک اس جنگ کی لپیٹ میں آ جائینگے۔ اب آتے ہیں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بیان کی طرف۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کیجانب سے ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے وزیراعظم عمران خان کے سفارت کاری کے مثبت کردار کا پہلے ہی اعتراف کیا جا چکا ہے اس لئے اس تناظر میں اب انکے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے۔ اگر وہ امریکہ کو مزید جارحیت سے گریز کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دنیا بھر میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ٹل سکتا ہے اور ایران بھی عرب ممالک پر ڈرون حملے بند کر سکتا ہے۔
ایران اور امریکہ کا یہاں ختم ہو آزاد
مثبت اگر ٹھہرے یہاں عمران کا کردار

ای پیپر دی نیشن