السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکتہ۔آپ پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ! یہ ایک رسمی سا جملہ نہیں بلکہ ایک جامع دعا ہے جو کہ آپ کی طرف سے مخاطب کو دی جاسکتی ہے۔ ایک ایسی دعا جسے ہم عرف عام میںسلام کہتے ہیں۔ اس مصروف ترین زمانے میں اگر انسان کسی نعمت کا سب سے زیادہ مستحق ہے تو وہ سلامتی ہے، اور کسی کے لئے سلامتی کی تمناکرنا بہرحال ایک انتہائی نیک جذبہ گردانا جاسکتا ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق خوش اسلوبی سے کلام کا آغاز، متکلم اور مخاطب دونوں پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ایک معاشرے کے کسی شخص کی پہچان میں اس کی گفتار کا کلیدی کردار ہوا کرتا ہے۔گفتار کے معیار کو جانچتے ہوئے ہی ہم کسی کو خوش اخلاق، اور کسی کو بدزبان ہونے کی سند سے نوازتے ہیںاور یہی عنوان ایک معاشرے میں کسی شخصیت کی پہچان بن جاتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انداز گفتگو ہی انسانی شخصیت کی عکاس ہے۔اگر گفتگو سے پہلے آپ مختصر ترین اور جامع ترین ابتدائیہ کے متلاشی ہیں تو یقین جانئے کہ سلام سے زیادہ موثر اور بابرکت آغاز کوئی اور نہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں ہم فون پر متعدد بار اپنے احباب سے گفتگو کرتے ہیں۔ایسے میں جو الفاظ سب سے پہلے ہماری زبان سے ادا ہوتے ہیں ان کا ایک اثر مخاطب پر قائم ہوتا ہے۔بہت سے ایسے بے معنی الفاظ بھی ہیں جو ہم عموما اپنی ٹیلیفونک گفتگو کے آغاز پر ادا کرتے ہیں، جو بہر حال نامناسب نہ بھی سہی لیکن کسی نہ کسی درجے میں غیر اہم قرار دئے جاسکتے ہیںچناچہ اگر ایک با معنی ، نیک مقصد دعائیہ آغاز کو معمول بنا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔جدید دور کے مصروف ترین معاملات نے بنی نوع انسان کو جو سوغات سر فہرست دی ہے اسے میڈیکل اصطلاح میں ٹینشن اور اینزائٹی کہا جاتا ہے۔اس بیماری کے بے شمار اثرات ہیں ، جنھوں نے میل جول میں بے رغبتی کو فروغ دیا ہے۔چنانچہ آج ہر ایک شخص کو دوسرے سے کنارہ کشی کا گلہ رہتا ہے۔ عزیز و اقارب ہوں، یا دیگر احباب ہوں سماجی دنیا میں کھوکھلی اور رسمی علیک سلیک نے تعلقات میں خلاء پیدا کردئیے ہیں۔ذہنی تنائو میں بات کرنے والے کی زبان اوردماغ دو مختلف جگہوں پر مصروف ہوتا ہے جسے آپ بخوبی محسوس کرسکتے ہیں، یوں دل ہی دل میں بات کرنے والے کی حالت پر ترس آنے لگتا ہے۔اس کیفیت میں نہ تو بات کرنے والا اپنا مدعا ٹھوس انداز میں بیان کرسکتا ہے اور نہ ہی مطلوبہ پیغام سامنے والے کو منتقل کرسکتا ہے۔غیر موزوں اور بے اثر گفتگو کی اتنی ساری وجوہات کو ایک اچھی ابتداء سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ اچھی ابتداء ’’سلام ‘‘ ہے۔اسکی تلقین کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سلام میں پہل کرنے والے کو متعدد خصوصیات کا اہل قرار دیا گیا ہے۔جبکہ دوسری طرف سلام کا جواب دینا سامع پر لازم قرار دیا گیا ہے۔کورونا جیسے وبائی امراض کے پھوٹنے سے دنیا بھر کے لوگ ایک دوسرے سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہوچکے ہیں، سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنا ہر ایک پر لازم بھی ہے۔ دو افراد کا باہم مصافحہ کرنا ممنوع قرار دیا جاچکا ہے۔ اس صورتحال میں با آواز بلند سلام کہنا ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ہم نفسیاتی طور پر قرنطینی کیفیت سے نکل سکتے ہیں۔سلام ایک باقاعدہ سیکھنے کی چیز ہے۔۔ جی ہاں ۔! اگر آپ ایک پراثر سلام کہنا چاہتے ہیں تو اس کلام کے معنی اور انداز تکلم سیکھنا لازم قرار پاتا ہے۔ورنہ وہی رسمی سا جملہ ہوگا جو سامنے والے کی سماعتوں سے ٹکر اکر واپس آجائے گا۔۔ سلام تو وہ ہے جو دل میں اتر جائے ، اور ایسا سلام باقاعدہ طور پر سیکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ عربی زبان میں زبر ، زیر ، پیش کے رد وبدل سے فاعل و مفعول کا فرق آجاتا ہے، اسی طرح مخصوص حروف کے حذف ہو جانے سے معنی بدل جاتے ہیں، جب کلام ٹھیک طریقے سے ادا نہ ہو تو اس کی روح بھی مرجھا جاتی ہے۔ چناچہ معقول طریقے سے سلام کرنا گفتگو کے ساتھ ساتھ انسانی شخصیت کا ایک مثبت پہلو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔عمومی طور پر جب ہم گھر میں داخل ہوتے ہیں تو باآواز بلند سلام کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں، حالانکہ سلامتی کی اس دعا کے سب سے زیادہ مستحق اہلخانہ کے علاوہ بھلا اور کون ہو سکتا ہے۔ یہاں اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ اکثر ہم گھر میں داخلے کے وقت فون پر مصروف ہوتے ہیں جس کی وجہہ سے گرمجوشی کے بجائے ایک سرسری سی نظر دوڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں تشریف لے جاتے ہیں، ایسی کیفیت میں ہمارے اہلخانہ کو اس بات کاشدید احساس ہوتا ہے کہ گویا وہ انتہائی غیر اہم ہیں، جو کہ اخلاقی حوالے سے ایک غیر اہم بات ہے۔ گھر میں داخل ہونا ایک باقاعدہ قابل توجہ عمل ہے، پورے دن کے انتظار کے بعد آپ کا پہلا رویہ آپ کے اہل وعیال کے دل میں اتر جاتا ہے، پھر چاہے وہ مثبت ہو یا منفی۔ خاص کر بچوں کے حوالے سے ہمیں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ پہلی وجہہ یہ کہ بچے نسبتا زیادہ حساس ہوتے ہیں اور دوسری وجہہ یہ کہ وہ سیکھنے کی صلاحیت سے مالامال ہوتے ہیں ۔ بچوں کو خود بڑھ کر انتہائی شفقت سے سلام کریں ، وہ آپ سے سیکھیں گے ، آپ سے محبت کریں گیںاور آپ کا یہ عمل ان کی زندگی میں لازمی جز بن جائے گا۔ اگر کوئی بچہ سلام میں پہل کر لے تو بھر پور جواب دینا بھی اتنی ہی افادیت کا حامل ہے، بالفرض اگر سلام کرتے کسی بچے کو نظر انداز کردیا جائے یا بھرپور جواب نہ دیا جائے تو بچے کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اول تو یہ کہ وہ احساس محرومی کا شکار ہوجاتا ہے اورثانوی اثر یہ کہ اعتماد کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کے تدریسی اداروں میں ایک وقت تک سلام وجواب کی باقاعدہ مشق بھی کروائی جاتی تھی۔ اساتذہ جب کمرہ جماعت میں داخل ہوتے تو تمام طلباء بیک وقت باآواز بلند کھڑے ہوکر سلام کا جواب دیا کرتے تھے۔ یہ دارصل بچوں کا معمول بنانے کا ایک عمدہ طریقہ تھا جو شاید اب بھی کہیں نافذ العمل ہو۔ دفتر میں ، انتظار گاہوں میں، انٹرویو میں، گھر میں، دوستوں میں، عزیز واقارب میں یا کسی محفل میں انتہائی خلوص سے سلام کرنا آپ کی شخصیت کو ایک نئی پہچان دینے کا ضامن ہے۔ اور سلام وہ دعا ہے جو کہ آپ رخصت کے وقت بھی اپنے مخاطب کو دے سکتے ہیں۔ ادبی خصوط کے علاوہ لکھے گئے مراسلوں میں تحریر ی طور پر’’ السلام علیکم ‘‘ کا ابتدائیہ بطور احسن دیکھا جاسکتا ہے۔الغرض درخواست گزار ہو یا مراسلہ نگار ہر ایک کے لئے اس انتہائی جامع دعائیہ کلمے کا کوئی نعم البدل نہیں۔تو آج کا پیغام یہی ہے کہ سلام کو عام کیجئے۔ والسلام
سلام کریں۔خلوص سے کریں
Jan 12, 2021