ہوشربا مہنگائی کے خاتمہ کا انتظار کب تلک؟

جب تین سال قبل وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالی تو عوام بڑے پُرامید تھے کہ انہیں روزگار‘ طبی سہولتوں‘ انصاف‘ بہتر تنخواہوں اور پنشن کی فراہمی میں ریلیف ملے گا لیکن ریلیف ملنے کی بجائے تمام شعبوں میں وہی چال بے ڈھنگی ہے جو پہلے تھی‘ وہ اب بھی ہے اور گرانی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے جس سے عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ کئی بار پنشن ختم کرنے کا اعلان کر کے ریٹائرڈ ہونیوالے ملازمین میں سراسمیگی کی فضا پیدا کی گئی کیونکہ پنشن بڑھاپے میں ایک ایسا بہترین سہارا ہے کہ اس سے محروم کرنے کا اعلان ان پر بجلی بن کر گرا‘ بے شک اس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔ وزیراعظم محمد عمران خان نے کئی بار اپنے خطاب میں عوام کو اس خوفناک مہنگائی سے نجات دلانے کا عندیہ دیا ہے لیکن ابھی تک مہنگائی بے قابو چلی آرہی ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے منشور کے مطابق دونوں سابق حکمرانوں کیخلاف احتساب کرنے کے اعلان پر عمل کرنے کو ترجیح دی جس پر دونوں سابق حکمرانوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر دیا جس سے ڈالر کی اڑان اور مہنگائی کے اضافہ کا آغاز ہو گیا اور اس سے پاکستان کے عوام کی حالت قابل رحم ہو گئی ہے اسکے باوجود عوام کی قوت برداشت قابل داد ہے ۔ موجودہ حکومت نے سابق حکمرانوں کے خلاف ہر فورم پر کرپشن کا واویلا شروع کر رکھا ہے لیکن یہ باور کرنا ہو گا کہ انکے دور حکومت میں روزمرہ اشیائے صرف اتنی مہنگی نہ تھیں جتنی آج ہیں۔ گزشتہ دور حکومت کی طرح موجودہ دور حکومت میں بھی جب ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی کی تنخواہوں کی صدا بلند ہوئی تو تمام نے اپنے سیاسی اختلافات کے باوجود یک زبان ہو کر اسکی حمایت کی حالانکہ عوام کا ترجمان یہ طبقہ پہلے ہی بہت خوشحال ہیں لیکن ایک بار بھی انہوں نے متحد ہو کر عوام کی زبوں حالی اور ملازمین کی تنخواہوں  میں اضافہ کیلئے آواز بلند نہیں کی۔ وزیراعظم محمد عمران خان نے جتنی زیادہ توانائیاں کرپشن کیخلاف استعمال کی ہیں جن کا ابھی تک کوئی قابل ذکر رزلٹ سامنے نہیں آیا اگر یہی توانائیاں وہ مہنگائی کیخلاف صرف کرتے تو اسکے بلاشبہ حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوتے حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی سابقہ 20 سالہ سیاسی تگ و دو میں عوام کو انکی حالت بدلنے کی کئی بار یقین دہانی کرائی تھی ۔ فیلڈمارشل ایوب خان مرحوم کے دور حکومت میں ایک بار چینی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا تو اس وقت کے وفاقی وزیر خوراک عبدالغفور ہوتی نے استعفا دیدیا لیکن ہمارے جمہوریت کے علمبرداروں میں سے کسی نے ایسی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جبکہ حکومت مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ کئی بار پٹرولیم منصوعات‘ کھادوں‘ بیجوں اور روزمرہ استعمال کی اشیاء میں بے حد اضافہ نے عوام کا ناک میں دم کر رکھا ہے لیکن حکومت کا ایک ہی جواب ہے کہ وہ اپنے طور پر گرانی کم کرنیکی کوشش کر رہے ہیں اور انکے ہاتھ میں کونسا الٰہ دین کا چراغ ہے کہ بٹن دباتے ہی مہنگائی کا خاتمہ ہو جائیگا کیونکہ موجودہ حکومت کویہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد انکے دور میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے کیونکہ وزراء‘ مشیران اور ممبران پارلیمنٹ کو اپنی تمامتر توانائیاں اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کیلئے صرف کرنی پڑ رہی ہے جن میں اپوزیشن بھی برابر کی ذمہ دار ہے جس نے ان 3 سالوں میں موجودہ حکومت کو سکون سے حکومت کرنے کا وقت نہیں دیا کیونکہ اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو انکا مستقبل تاریک ہو جائیگا کیونکہ  پاکستان کی سیاست میں برسراقتدار کو طبقہ بیش بہا سہولتوں اور آسائش حاصل ہوتی ہیں اور موجودہ دور میں سیاسی روزافزوں اختلافات نے نہ صرف ملک بلکہ عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اگر فریقین میں اتنی طویل سیاسی محاذ آرائی نہ ہوتی تو عوام کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ عوام کی اس زبوں حالی کے باوجود حکومتی افراد کی پیشانیوں پر مسرتیں رقص کر رہی ہیں اگر وہ اقتدار کے حصار سے باہر نکل کر عوام‘ ملازمین اور بالخصوص پنشنرز کے آنگن میں ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو ان پر واضح ہو جائیگا کہ جن لوگوں کے ووٹوں سے وہ ایوان اقتدار میں پہنچے ہیں انکی حالت زار اور غربت و افلاس اور ملک بھر کے دیہات کو شہروں سے ملانے والی تمام سڑکیں کھنڈرات بن چکی ہیں۔ سولنگ اور سیوریج ناکارہ ہو چکے ہیں اس سے عوام کافی الرجک ہیں جو اس امر کی غمازی کر رہی ہے کہ موجودہ منتخب نمائندوں نے عوام کی دیانتداری سے خدمات سرانجام نہیں دیں اور اس کے باوجود حکومت بڑے دعوے کر رہی ہے کہ جب وہ آئے تو خزانہ خالی تھا انکی کاوشوں سے خزانہ میں اربوں ڈالر جمع ہیں اور اس سے غربت دور کرنے میں مدد ملے گی جبکہ خزانہ میں جمع اربوں ڈالر کے اثرات ابھی تک نچلی سطح تک نہیں پہنچے اور غربت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ملازمین اور پنشنرز ابھی تک آس لگائے حسرت بھری نگاہوں سے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ پنشنرز پوری قوم کا ایک بزرگ اور ایک قابل احترام اثاثہ ہوتا ہے ۔اللہ نے جن کے قدموں اور ہلکی سی مسکراہٹ پر جنت کی بشارت دی ہے اور قیامت کے دن ہر فرد کو ماں کے نام سے پکارا جائیگا اور حکومتی پالیسیوں کے باعث ملازمین اور پنشنرز پیسے پیسے کے محتاج ہیں اگر یہ کہا جائے کہ تبدیلی سرکر نے عوام کو مہنگائی کے سوا کچھ نہیں دیا تو بیجا نہ ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان ایک دیانتدار‘ بے باک اور محب وطن وزیراعظم ہیں وہ آج بھی ملازمین کی تنخوہوں میں معقول اضافہ کر کے 22 کروڑ عوام کی آنکھوں کا تارہ بن سکتے ہیں تاکہ بھرے ہوئے خزانہ کے اثرات روزافزوں مہنگائی تلے دبے عوام تک پہنچ سکیں اورغربت تلے سسکتے لوگ جنکی آنکھیں مہنگائی کم ہونے کے انتظار میں پتھرا گئی ہیں انہیں اس جان لیوا انتظار سے نجات مل سکے اور آنیوالی نسلیں وزیراعظم محمد عمران خان کے دورحکومت پر فخر کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن