اسلام آباد (نیوز رپورٹر) وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر فروغ نسیم نے سینٹ کو بتایا کہ سندھ کے آئرلینڈ کا انتظام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پورٹ قاسم کے سپرد ہوا تھا۔ انہوں نے اس کی دستاویزات بھی ایوان بالا میں پیش کردیں۔ انہوں نے جولائی 2020ء میں سندھ کابینہ کی طرف سے وفاقی انتظام سے متعلق فیصلے کی کاپی بھی ایوان بالا میں پیش کی۔ تاہم پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے اسے مسترد کردیا۔ پیر کو وفاقی وزیر فروغ نسیم نے ایوان بالا میں صوبوں کے جزائر سے متعلق ایجنڈا آئٹم پر اپوزیشن ارکان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ ہم ذوالفقار علی بھٹو کے اقدام کا دفاع کررہے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کیا کررہی ہے، ان دستاویزات کے حوالے سے یہ قوم کو جوابدہ ہے۔ ان کی تقریر کے دوران سسی پلیجو اور دیگر پیپلزپارٹی کے ارکان نے احتجاج کیا جبکہ پی پی کے سینئرارکان اس دوران ایوان میں نہیں تھے۔ انہوں نے کہاکہ آرڈیننس ہر دور میں جاری ہوئے ہمارے دور میں جاری اکثریت آرڈیننس کو قانون کا درجہ مل چکا ہے۔ کسی معاملے پر دوبارہ کوئی آرڈیننس جاری نہیں کیا۔ ہمارے تعلقات کار کی بنیاد آئین ہے۔ ہم بلوچ بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کا شروع دن سے یہ ایجنڈا رہا کہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑا جائے، الگ کیا جائے، یہ بھارتی منصوبہ کسی آپریشن نہیں بلکہ غیور بلوچوں کی وجہ سے ناکام ہوا ہے۔ بلوچستان کل بھی ہمارا تھا آج بھی ہمارا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے متعلقہ جزیرے کو پورٹ قاسم کے حوالے کیا تھا۔ جولائی 2020ء میں سندھ کابینہ نے متفقہ طورپر وفاق کو انتظام سنبھالنے کا کہا۔ سینیٹر رضا ربانی کو بلالیں وہ بھی میری بات سن لیں بعد میں اعتراض نہ کریں۔ اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی لابی میں موجود تھے۔ چیئرمین سینٹ نے ریمارکس دئیے کہ وہ سن رہے ہوں گے۔ پیپلزپارٹی تو ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت کررہی ہے۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے ارکان نے شورشرابا کیا، وزیر قانون نے کہاکہ شور نہ مچائیں اپنی باری پر بات کریں۔ یہ آئرلینڈ ذوالفقار علی بھٹو اور سندھ کابینہ نے دیا۔ پیپلزپارٹی ضرور قوم کو جوابدہ ہے۔ اپوزیشن سے قوانین، خارجہ امور، معیشت پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ یہ تجاویز دیں حکومت غور کرے گی۔ ایوان بالا کے اجلاس میں سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اور سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کے والد حاجی نواز کھوکھر مرحوم کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ اجلاس چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا۔ سینیٹر مولانا فیض محمد نے حاجی نواز کھوکھر مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کیلئے دعا کرائی۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کی تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے قائد ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ بنڈل آئی لینڈز کے حوالہ سے بحث کے دوران یہ تاثر ابھرا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی زمین پر قبضہ کی خواہش رکھتی ہے، پاکستان کا چپہ چپہ اہم اور عوام کیلئے ہے۔ پاکستان ہی ہم سب کی شناخت ہے۔ اگر یہ ڈویلپ ہو گئے تو سب سے زیادہ فائدہ صوبوں کا ہی ہو گا اور ان کے عوام کو روزگار، سرمایہ کاری کے مواقع ملیں گے، ماہی گیروں کو مواقع ملیں گے، جو ریونیو حاصل ہو گا وہ بھی صوبائی حکومتوں کو ملے گا۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے جزائر کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس پر صوبے اپنا ردعمل دے چکے ہیں کہ یہ ذخائز صوبوں کے پاس رکھے جائیں۔ صوبوں کے حقوق چھین لیے جائیں تو پھر بڑا مسئلہ ہو گا۔ سینیٹر رضا ربانی کی بات کی تائید کرتا ہوں۔ سینٹ اجلاس میں سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے کچھ اچھی باتیں اور کچھ ناقابل فہم تھیں، میرا یقین ہے کہ موجود ہ پانچ سال اور اگلے پانچ سال بھی عمران خان کے ہونگے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ وفاق کس بلا کا نام ہے، اور یہ یونٹ کے زور پر موجود ہے۔ ان ذخائر پر عوام کا حق ہے، یہاں ایوان میں جھوٹ بولا گیا، ہم گواہ ہیں کہ اجلاس جاری تھے اور آرڈیننس جاری کیے گئے، دو تین ذخائر نہیں بلکہ 300کے قریب ذخائر ہیں، میری ٹائم رولز میں بارہ ناٹیکل کی حدود میں جو بھی ہو گا صوبوں کا ہو گا، میرا دعویٰ ہے کہ آپ کل بھی الطاف حسین کے تھے اور آج بھی اسی بندے کے لیے کام رہے ہیں اور وقت آنے پر ثابت ہو جائے گا۔ عثمان کاکڑ نے مزید کہا کہ یہ ملک برائے فروخت نہیں موجودہ حکومت کا ایجنڈا ختم کر کے دم لیں گے۔ میرا کہنا ہے کہ بھارت کے ایجنڈے پر آپ لوگ تھے جو اپ کا لیڈر الطاف حسین ثابت ہو چکا تھا۔ میرا مطالبہ ہے ان آرڈیننس کو واپس لیا جائے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا غلام بن گیا ہے، موجودہ حکومت نے پرانی حکومتوں کی پالیسوں کو دوام دیا ہے، جب قرضہ لینے پر خودکشی کا کہتے تھے اور آج کیوں قرضہ پر قرضہ لیا جا رہا ہے۔ سابق ادوار میں بھی اداروں کو تباہ کیا گیا اور اب بھی اسی روش پر کام کیا جا رہا ہے، ملک اندھیروں میں ڈوب گیا اور سیاست بھی اندھیروں میں ڈوب گئی، کل تک کشمیر کا سفیر کہنے والے آ ج کہاں گئے۔ بھارت کشمیر پر مسلط ہو چکا ہے، این ایف سی ایوارڈ بھی نہ دیا گیا، کل قبائلی علاقوں کو کراچی‘ پنجاب کے برابر ترقی دینے کا وعدہ کہاں گیا، ریاست مدینہ کی جانب ایک قدم بھی اب تک نہ بڑھایا گیا، اردو زبان کو سرکاری زبان ابھی تک نہ بنایا جا سکا، سی ایس ایس امتحان میں اردو کو لازمی قرار دیتے تو کہیں نہ کہیں ہم بھی کہتے کہ ملک کے لیے کام ہو رہا ہے، کوئٹہ میں منفی درجہ حرارت پر وزیر اعظم اپنی مرضی سے گئے اور عوام کو سڑکو ں پر رلایا۔ علاوہ ازیں بلوچستان اور سندھ کے جزیرے انکے حوالہ کیے جائیں اور ایسے مسائل کھڑے کر کے ملک کو تقسیم نہ کیا جائے۔ سینٹربیرسٹر سیف نے کہا کہ ایوان میں تمام تقریریں سنیں، ذاتی حملے بھی کیے گئے، دلائل سے بات کرنی چاہیے۔ جب ذخائر کی بات کی جاتی ہے تو میرے مطابق یہ اختیارات وفاق کو ہے اور کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ سپریم کورٹ جا کر فیصلہ کروا سکتا ہے۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ جب تک تمام ادارے رضامند نہیں ہوتے اختیارات کی مثلث پر عملدرآمد کیا جائے۔ اس وقت تک تمام باتیں بے سود ہیں۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ وفاق کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے جبکہ اداروں کے درمیان مذاکرات ہی ریاست کو آگے لے جانے کا واحد حل ہیں۔