ایوان بالا  میں جزائر سمیت دیگر آرڈننسوں پر حکومتی واپوزیشن ارکان کی بحث 

پیر کو  سینیٹ کا  ا جلاس  دو روز کے وقفے کے بعد   منعقد ہوا  سینیٹ کا اجلاس اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا  چیئرمین  سینیٹ صادق سنجرانی  نے پورے اجلاس  کی صدارت کی  ایوان میں ڈپٹی  چیئرمین  بھی ایوان میں موجود  تھے سینیٹ  میں قائد ایوان  ڈاکٹر شہزاد وسیم  اور  قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق   بھی پورے اجلاس  میں موجود رہے  سینیٹ کا اجلاس  شروع ہوا تو اس وقت ایوان میں 14ارکان  تھے جب اجلاس ملتوی ہوا 22ارکان  تھے ایوان بالا کے اجلاس میں سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی  اور سینٹر مصطفی نواز کھوکھر کے والد  حاجی نواز کھوکھر مرحوم کیلئے  فاتحہ  خوانی کی گئی۔  سینیٹر  مولانا فیض محمد نے حاجی نواز کھوکھر مرحوم  کی روح کے ایصال ثواب کیلئے دعا کرائی۔ چیئرمین  سینیٹ ارکان کو بار بار ماسک پہننے کی تاکید کرتے رہے، چیئرمین سینیٹ کی نظر جونہی کسی ایسے رکن پر پڑتی جس نے ماسک نہیں پہنا ہوتاتو وہ فورا انہیں ماسک پہننے کی تاکید کرتے۔سینیٹر میر کبیر نے ایک موقع پر چیئرمین سے کہا کہ جو سینیٹرز ریٹائر ہو نے والے ہیں انہیں بات کرنے کا زیادہ موقع دیا جائے جس پر چیئرمین نے برجستہ کہا کہ 6 سال سے آپ باتیں ہی کر رہے ہیں۔ ایوان بالا میںوزیر قانون و انصاف فروغ نسیم  نے  راجہ ظفر الحق   کا زبردست الفاظ  میں خراج  تحسین  پیش کیا  اور کہا کہ وہ  انتہائی شریف النفس، ایماندار شخصیت ہیں ہمیشہ بیلنس اپروچ اختیار کی  ہمیں بھی ان جیسے  بہترین رہنمائوں سے پیار و محبت ہے راجہ ظفر الحق  نے ان کے جذبات  کا مسکرا  کر جواب  دیا   اجلاس  میں   جزائر سمیت دیگر آرڈیننسوں  پر بحث کی تحریک  پر حکومتی اور اپوزیشن12  ارکان    نے بحث میں حصہ لیا  یہ تحریک  صدارتی آرڈیننس  کے بارے میں تھی جس کے تحت سندھ اور بلوچستان کے جزائر  پر وفاق  کا کنٹرول  دے دیا گیا تھا  ایوان میں ایم کیو ایم کے ایک  سینیٹر نے پوائنٹ آرڈر پر بات کی  ایوان  میں  حکومت اور اپوزیشن کے  درمیان  ’’ڈائیلاگ ‘‘ کو  مسترد  کر دیا  گیا جزائر سے متعلق آرڈیننس پر حکومت  پر کڑی  تنقید کی  وفاقی وزیر   فروغ نسیم  اور قائد ایوان  سینیٹ سینیٹر شہزاد وسیم  نے حزب اختلاف کی تنقید  کا  ترکی بہ  ترکی  جواب دیا  سینیٹ میں اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ میں اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی تجویز پیش  کی  لیکن   اس کو پذیرائی  حاصل  نہیں ہو ئی  البتہ  جزائر سے متعلق آرڈننس پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ، اپوزیشن ارکان نے کہا کہ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ  وفاق کو مستحکم کرنے کا  واحد حل ہے ،پارلیمنٹ نے پہلے بھی پہل کی ، فورم پارلیمنٹ ہے،ڈائیلاگ پارلیمنٹ  نے  شروع کرنا ہے  ، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ نہیں ہو سکتا وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف فروغ نسیم  اور قائد ایوان سینیٹ سینیٹر شہزاد وسیم نے حکومتی  موقف کا  دفاع  اور  کہا کہ  اگر کوئی آرڈیننس جاری کیا جارہا ہے تو آئین کے مطابق ہے ،آرٹیکل 89نے ہمیں اجازت دی ہے،   نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر نے  انکشاف  کیا کہ یہ حکومت چالیس کے قریب آرڈیننس جاری کر چکی ہے، قوم کے مفاد میں ایک بھی آرڈیننس نہیں ملے گا، چپکے سے ایک آرڈیننس جاری ہوا ،دو ستمبر 2020کو اس کا اجرا ہوا، جزائر کے آرڈیننس کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے،مسلم لیگ (ن)  کے سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ  سی پیک کو ہمیں آگے چلانا ہے اس پرہماراکوئی اختلاف نہیں ہے، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف  سینیٹر فروغ نسیم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کتنے  آرڈیننس لے کر آئی اور ن لیگ کی حکومت کتنے  آرڈیننس لے کر آئی، جب 18ویں ترمیم ہو رہی تھی تو ایک طاقت ور کمیٹی بیٹھی، کاش اس وقت ایسی ترمیم کردیتے  تو یہ نہیں ہوتا،  فروغ نسیم نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بدو بنڈل آئی لینڈ پورٹ قاسم اتھارٹی کو دے دیا تھا، ہم ان کے دفاع میں ہیں کہ ذولفقار علی بھٹو نے صحیح کیا، فروغ نسیم نے  کہا کہ  یہ آرڈیننس لیپس کر گیا آریننس28 دسمبر کو لیپس کر گیا ہے،  کوئی ایسی چیز جو حکومت غلط کررہی ہے توہمیں بتائیں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ حکومت آرڈیننس کی فیکٹری ہے ، یہ آرڈیننس لیپس  ہوچکا ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاںرضا ربانی نے کہا کہ لگتا  ایسے ہے کہ ریاست نے اس بات کر فیصلہ کر لیا  ہے کہ وہ تمام تر فالٹ لائنز جو ملک کے اندر  موجود  ہیں ان کو اجاگر کیا جائے، سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ پارلیمنٹ ہائوس آف فیڈریشن ہے ،اڑھائی سال ہم نے الزامات میں گزارے ہیں ۔  قائد ایوان سینیٹرڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ یہ تاثر ابھرا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے حقوق پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، پاکستان کا چپہ چپہ قیمتی اور عوام کی امانت ہے، وفاقی حکومت صوبے کو پاکستان کی حیثیت کی نظر سے دیکھتی ہے، سینیٹر عثمان خان کاکڑنے کہا کہ پاکستان بننے سے قبل بھی جزائر صوبوں کے تھے، وفاقی حکومت  صوبوں سے لیز پر یا خرید کر صوبوں میں منصوبہ لگاسکتی ہے، جزائر کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس سراسر غلط ہے،300 سے زائد جزائر ہیں، یہ ان پر قبضہ کا آغاز  ہے   سینیٹ کے اجلاس  میں سینیٹر میاں عتیق شیخ نے خواجہ سرا ئوں  پر تشدد کا معاملے اٹھایا  انہوں  نے  معاملہ انسانی حقوق کمیٹی میں بھیجنے کا مطالبہ کر دیا  چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے نیب کے خلاف اپوزیشن کی شکایات پر غور کے لئے آج منگل کو  اپنے  چیمبرمیں اجلاس طلب کر لیا، اجلاس میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق، ڈپٹی چیئر مین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور مشیر احتساب شہزاد اکبر شرکت کریں گے جبکہ ڈپٹی چئیر مین سینیٹ سلیم مانڈوی والہ  نے کہا ہے کہ  اگر معاملہ حل نہ ہو تو  نیب کے خلاف اور اس کے  احتساب کیلئے قرار دادیں لائو ں گا۔

ای پیپر دی نیشن