اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے سے متعلق دائر کردہ صدارتی ریفرنس کی سماعت 13جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ معاملے پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے پورے آئینی ڈھانچے کو جانچنا پڑے گا، عدالت مجموعی طور پر جائزہ لیکر ہی فیصلہ کرے گی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔جمعیت علمائے اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ پیش ہوئے اور کہا کہ ہم تحریری معروضات جمع کرانا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ دفتر ہمارا تحریری جواب وصول نہیں کر رہا، اس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ آپ تحریری جواب داخل کرا دیں،پیپلزپارٹی کے سینیٹر اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ بطور سینیٹر مقدمے میں فریق بننا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو فریق بننے کی اجازت ہے، تحریری جواب داخل کرائیں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے صوبائی حکومت کے جواب جمع کرانے سے متعلق جب کہا گیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا سندھ حکومت کا جواب میٹھا ہوگا؟ جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا، بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگرچہ جواب جمع کرانے کے لیے 2 ہفتوں کی مہلت تھی آپ اس ہفتے جمع کرادیں،اس پر وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ میں نے جواب جمع نہیں کرایا لیکن جواب تیار ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ابھی عدالت میں جمع کرادیں، سارے جوابات آجائیں تو پھر معاملے کو دیکھتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسارکیا کہ کیا قانون کے مطابق کوئی عام شہری آزادانہ سینیٹ الیکشن لڑسکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بالکل کوئی قانونی قدغن نہیں، کوئی بھی شہری الیکشن لڑسکتا ہے، قومی اسمبلی کے الیکشن براہ راست ہوتے ہیں،بعد ازاں اٹارنی جنرل نے تحریری معروضات جمع کرائیں اور کہا کہ صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے تحت قابل سماعت ہے، صدارتی ریفرنس آرٹیکل 226 کے اسکوپ سے متعلق ہے جبکہ سپریم کورٹ صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے، مزید یہ کہ عدالت عظمیٰ مستقبل کی قانون سازی سے متعلق بھی رائے دے سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم پر اخبارات میں اشتہارات دیے گئے تھے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر قانونی سوال پر سپریم کورٹ کی رائے لے سکتے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے سوال قانونی یا عوامی مفاد کا ہے یا نہیں؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں بھی قوانین پر سپریم کورٹ سے رائے لی گئی ہے، کئی بار قانون سازی سے قبل صدر نے عدالتوں سے رائے لی، مزید یہ کہ عدالت ماضی میں بھی صدارتی ریفرنسز قابل سماعت قرار دے چکی ہے۔ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے معاملے پر بھی صدارتی ریفرنس آیا تھا، عدالت نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا یا مسترد کرنے کی قرار داد منظور کر سکتی ہے،خالدجاوید خان نے کہا کہ بھٹو ریفرنس کے علاوہ عدالت تمام ریفرنسز پر فیصلہ دے چکی ہے، بھارت میں بھی سینیٹ انتحابات اوپن بیلٹ سے ہوتے ہیں، سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے تو الیکشن ایکٹ میں خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہوتا، صدارتی انتحابات کا مکمل طریقہ آئین میں درج ہے، صدارتی انتحابات آئین کے تحت خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں،اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ آئین کے تحت کونسے انتحابات ہوتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی انتخابات کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے، جن انتحابات کا طریقہ کار آئین میں نہیں وہ قانون کے تحت ہوں گے،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کا الیکشن کمیشن سے کوئی تعلق نہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوگا،سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار آئین میں نہیں، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا الیکشن آئین کے تحت ہوتاہے؟ کیونکہ آئین کے تحت الیکشن کی جو تشریح آپ نے کی، اس کے مطابق سپیکر کا انتخاب قانون کے تحت بنتا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ کو اس نقطے کی مزید وضاحت کرنا ہوگی،عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے، آئین اسمبلی کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے، رولز آئین کے تحت بنے اس لیے الیکشن بھی آئین کے تحت ہی ہوگا، آئین کی اسکیم بہت واضح ہے اور اس اسکیم کے تحت مختلف باڈیز اور اداروں کی تشکیل ہوتی ہے،جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین مشینری فراہم کرتا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بالکل اور کچھ انتخابات ایسے ہیں جو قانون کے تحت ہوتے ہیں،اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی آئین مشینری فراہم کرتا ہے اور انتخابات قانون کے تحت ہوتے ہیں،انہوں نے سوال کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ 2017 متفقہ طور پر منظور ہوا تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے یہ علم نہیں، تاہم ایکٹ منظور ہوا،اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ میں لکھا ہے کہ سینیٹ انتخابات خفیہ ہوں گے اور آئین میں بھی لکھا ہوا ہے، جب آئین میں لکھا گیا تو پھر ایکٹ میں لکھنے کی کیا ضرورت تھی،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آئین کے تحت انتخابات ہوتے ہیں تو پھر کسی قانون یا ایکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی، بھارت کی مثال بہت واضح ہے انہوں نے یہ معاملہ حل کردیا، سینیٹ انتخابات میں بہت زیادہ پریفرنس ہوتی ہے۔ کچھ آفسز/باڈیز کے لیے آئین صرف مشینری فراہم کرتا ہے لیکن انتخابات قانون/ایکٹ کے تحت ہوتے ہیں، میں وضاحت کروں گا کہ کون سے آفسز صرف آئین کے تحت فِل ہوتے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں بھی الیکشن قانون کے لیے خصوصی پروویژن دی گئی ہے، صدر کے انتخاب کا مکمل طریقہ کار آئین میں فراہم کیا گیا ہے، اس کے لیے کسی ایکٹ یا قانون کی ضرورت ہی نہیں،انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہی وہ ادارہ ہے جو آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات کا انعقاد کرتا ہے، آئین کے تحت انتخابات وہ ہوتا ہے جس کی مشینری اور طریقہ کار بھی آئین میں دیا گیا ہو،اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یعنی آئین کے تحت جو انتخابات ہوتے ہیں اس کے لیے کسی ایکٹ یا قانون کی ضرورت نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار واضح نہیں ہے، گزشتہ آئینی ترامیم میں سینیٹ انتخابات کے بارے میں وضاحت کے موقع کو ہم نے گنوا دیا،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پورے آئینی ڈھانچے کو جانچنا پڑے گا، عدالت مجموعی طور پر جائزہ لیکر ہی فیصلہ کرے گی۔