فوج کو سیاست میں کھسیٹا جائے نہ تنقیداچھی بات: ڈی جی آئی ایس پی آر، پنڈی آنے کی وجہ نہیں، آئے تو چائے پانی پلائیں گے

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ فوج کا کسی سے قطعاً کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں۔ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت  نہیں کرتی ہے، نہ ہی اسے سیاست میں گھسیٹا جائے۔ گزشتہ روز آئی ایس پی آر کے آڈیٹوریم میں  میڈیا بریفنگ   اور بعد ازاں سوال و جواب کے سیشن کے دوران انہوں نے  فوج کے خلاف بیانیے کے حوالے سے سوال کے جواب میں  کہا کہ میں سیاسی تبصروں سے گریز ہی کرتا ہوں لیکن  اگر آپ تنقید یا نام نہاد الزامات کی بات کررہے ہیں تو فوج اپنا کام کررہی ہے،فوج اپنی قربانیاں بھی دے رہی ہے، ہم ان پر ردعمل کیوں نہیں دے رہے ۔ الزامات میں اگر کوئی حقیقت ہو تو ردعمل دیا جاتا ہے۔ ہم بہت مصروف ہیں، ہم ان چیزوں میں نہ پڑنا چاہتے ہیں نہ پڑیں گے، فوج اپنا کام  کرتی رہے گی، کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے اور پوری فوج اور شہدا کے اہلخانہ کا مورال بہت بلند ہے۔آرمی چیف رواں ہفتے کوئٹہ جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیانات پر فوج کے اندر تشویش اپنی جگہ  موجود ہے، جس نوعیت کی تنقید کی جا رہی ہے ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے۔  فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ ان الزامات کا حکومت نے بہت اچھے طریقے سے جواب دیا۔ راولپنڈی آنے کے آنے والے  سے پی ڈیم کے سربراہ  مولانا فضل الرحمٰن کے   بیان  کے بارے میں سوال  کا جواب  دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  ’مجھے ان کے پنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر آنہیں آتی، اگر وہ آئیں گے تو ان کو چائے، پانی پلائیں گے، ان کا خیال رکھیں گے‘۔ اس سے زیادہ اور میں کیا کہہ  سکتا ہوں۔ اگر کسی کو الیکشن پر  شک  ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ پاک فوج کو حکومت وقت نے الیکشن کرانے کا کہا، پاک فوج نے اپنی پوری ذمہ داری اوردیانتداری سے الیکشن کرائے۔ پاکستان میں تمام ادارے کام کر رہے ہیں اس ضمن میں اداروں سے رجوع کیا جائے۔ فوج تو اپنا کام کر رہی ہے۔ اپنے راستے  پر گامزن ہے اور کبھی اس راستے سے نہیں ہٹے گی۔ اس سے زیادہ، اس موضوع پر تبصرہ نہیں کرں گا۔ پریس کانفرنس کے آغاز پر انہوں نے کہا کہ آج کی پریس بریفنگ کا مقصد ملک کی مجموعی سیکورٹی اور بارڈرز کی حالیہ صورتحال کے ساتھ ساتھ، گزشتہ دہائی کے سیکورٹی  چیلنجوں کا تقابلی جائزہ اور چند دیگر اہم اْمور کے حوالے سے آگاہی دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق فاٹا کے علاقے کلئیر کرا لئے گئے ہیں۔ اب ملک میں کوئی برا فوجی آپریشن نہیں چل رہا۔ دو برسوں کے دوران ہم نے اپنی توجہ بلوچستان کی جانب موڑ دی ہے، بلوچستان میں سیکیورٹی ماحول اور خطرات کے حوالے سے ہم نے ایک ڈوزیئر پیش کیا تھا، اس ڈوزیئر میں اہم ہدف بلوچستان اور وہاں سے گزرنے والا اہم منصوبہ سی پیک تھا۔بلوچستان پاکستان کا 40فیصد اور بہت بڑا علاقہ ہے، اس کی سیکورٹی کو مربوط کرنے کے لیے بہت وسائل چاہئیں، ہم نے اس مد میں بلوچستان کی ایف سی کی استعداد میں اضافہ کیا ہے، پہلے پورے بلوچستان کو ایک ایف سی دیکھ رہا تھا لیکن اب دو ایف سی نارتھ اور ایف سی ساؤتھ بنا دی گئی ہیں۔ سی پیک کے منصوبوں کے لیے ایک نیا سیکیورٹی ڈویڑن بنا دیا گیا ہے جو گوادر میں ہے اور ساتھ میں ساحلی پٹی کی سیکیورٹی کو بھی دیکھ رہا ہے۔ ہم لگاتار خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر آپریشنز کررہے ہیں، خطرات ہیں، ابھی بھی مسائل ختم نہیں ہوئے لیکن چیزیں کنٹرول ہیں۔ بلوچستان جتنا بڑا صوبہ ہے تو وہاں ہر جگہ نفری کھڑی کرنا ممکن نہیں ہے، علاقوں کی سیکیورٹی کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور حالات میں مزید بہتری آئے گی، ہم یقینی بنائیں گے کہ بلوچستان محفوظ ہو کیونکہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے۔پاک افغان سرحد پر باڑ سے متعلق سوال پر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ فوج نے خود نہیں لگائی ہے بلکہ حکومت پاکستان کے احکامات پر پاکستان- افغانستان کی عالمی سرحد پر لگائی گئی ہے، یہ پاکستان کے عوام کی سیکیورٹی کے لیے لگائی گئی ہے اور اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ باڑ لگانے میں بھی ہم نے کئی قربانیاں دی ہیں، اس باڑ کو لگانا کوئی عام بات نہیں تھی، ہم نے یہ باڑ اپنے فوجیوں کے خون اور پسینے کی بدولت لگائی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس باڑ کو اکھاڑ سکے۔بھارت کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان فوج نے بھارتی اشتعال انگیزیوں کا ہمیشہ بھرپور طریقے سے جواب دیا ہے اور ہم جواب دیتے رہیں، وہ جو کچھ بھی کریں گے ہم اس کے لیے مکمل تیار ہیں اور وہ بھی اس بات کو جانتے ہیں۔ بھارت اپنے مورال کو اوپر رکھنے کے لیے اس طرح کی باتیں کرتا رہتا، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہماری صلاحیت کیا ہے اور ہم ان کے ارادے بھی سمجھتے ہیں، ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت شہری آبادی کو بہت زیادہ نشانہ بنا رہا ہے، ہمارا جواب ہمیشہ ان کے فوجی اہداف ہوتے ہیں لیکن وہ شہریوں عورتوں، بچوں اور بزرگوں تک کو نشانہ بناتے ہیں حتیٰ کہ جانوروں کو بھی نشانہ بناتے ہیں، حکومت پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر رہنے والوں کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کیے ہیں، ہر گھر میں ان کو حفاظتی بنکرز بنا کر دیئے جارہے ہیں۔  بھارت کے بارے میں ڈوزیئر سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اور وہ زمینی حقائق پر مبنی ہے، دنیا کے مختلف ممالک اور آرگنائزیشنز کو دفتر خارجہ کے ذریعے اسے پہنچا دیا گیا ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اس کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا ہے، اس ڈوزیئر کی بات ہی چل رہی تھی کہ ای یو ڈس انفورمیشن لیب کی رپورٹ آگئی جو پاکستان نے تیار نہیں کرائی بلکہ ایک بین الاقوامی معیار کے تیسرے فریق نے تیار کی ہے جس میں واضح ثبوت سانے رکھ دیے گئے ہیں لہٰذا دنیا اس بارے میں بات کررہی ہے، بھارت جتنا مرضی انکار کرنا چاہے لیکن اب تردید  ممکن نہیں ہے۔ عالمی  میڈیا میں  بھی  اس کا ذکر ہو رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ سمیت  سب ہی ملکوں سے ہمارے ملٹری ٹو ملٹری اور حکومتی سطح پر رابطے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی سرزمین پر اب دہشت گردی کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ چونکہ باڑ ابھی مکمل نہیں  جس کی وجہ سے کچھ لوگ آ سکتے ہیں لیکن اب مستقل یہاں کوئی ٹھکانہ نہیں بنا سکتا۔ ایسے لوگوں کی ویڈیوز  اور پروپیگنڈے پر یقین نہ کریں کیونکہ  جو جگہ یہ دکھا تے ہیں پتہ نہیں وہاں یہ موجود ہوتے ہیں یا کہیں اور بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایرانی خبر رساں ادارے کے نمائندے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ  پاکستان میں کسی حد تک داعش کے نشانات موجود ہیں لیکن پاکستان نے انہیں کبھی قدم جمانے کا موقع نہیں دیا۔ اسے بیرونی مدد ملتی ہے۔ ہم ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ داعش کے افغانستان میں ٹھکانے موجود ہیں جن کی را سرپرستی کر رہی ہے ۔پاکستان اور ایران کے درمیان حکومتی اور فوجی سطح پر عمدہ تعلقات ہیں اور سلامتی سمیت تمام امور پر  روابط قائم ہیں۔ سلامتی کے معاملہ پر ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ یورپی یونین کی ڈس انفو لیب نے یہ نشاندہی  بھی کی ہے کہ بھارت کے منظم پروپیگنڈے میں پی ٹی ایم کو  بھی جگہ دی جاتی تھی تو عسکری ترجمان نے جواب دیا کہ ہم تمام معاملات کی تحقیقات کر رہے ہیں اور شواہد میڈیا کو  بھی  دکھائیں گے۔ ترجمان سے پوچھا گیا کہ بعض قوتیں پاکستان میں خونی انقلاب کی بات کرتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ ملک میں انتشار پھیلانے کی بات ہے۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ متحد ہو کر ایسی قوتوں کو کبھی ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنے محل  وقوع اور عوام کی وجہ سے پاکستان ایک اہم ملک ہے  جس کی وجہ سے پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان اپنے مشکل ترین دور سے بحفاظت اور سرخرو ہو کر نکلا ہے اور آئندہ بھی  ایسا ہی ہو گا۔ اس سے پہلے  انہوںنے کہا کہ  گزشتہ 10سال ہر لحاظ سے  چیلنجوں سے بھرا   وقت تھا۔۔ 2020 کی ہی بات کریں تو اس میں کرونا جیسی عالمی وَبا، تڈی دل کی وبا سامنے آئی  ،جس کے نتیجے میں معیشت اور خاص کر فوڈ سیکورٹی کو شدید خطرات لاحق تھے۔پچھلی دہائی میں ایک طرف مشرقی سرحد اور  LOCپر ہندوستان کی شر انگیزیزیاں جاری تھیں تو دوسری جانب مغربی سرحد پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے جوڑ توڑ  اور پْشت پناہی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جا رہا تھا۔ان تمام چیلنجوں  کے باجود، ریاست،  تمام قومی اداروں، افواجِ پاکستان، انٹیلی جنس ایجنسیز اور سب سے اہم پاکستانی عوام نے متحد ہو کران مشکلات کا  بھرپورمقابلہ کیا  اور بحیثیت قوم الحمد اللہ تعالیٰ نے ہمیں سْر خرو کیا۔ مغربی سرحد پرقبائلی اضلاع میں امن بحال کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں  سماجی، و معاشی پراجیکٹس کا آغاز کیا جا چْکاہے۔ پاک -افغان  اور  پاک -ایران سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے مربوط اقدامات کئے گئے۔دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشنز کے نتیجے میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال بہتر ہوئی۔ ہندوستان کے مذموم عزائم ہوں یا  پاکستان کے خلاف ہائی برڈ وارفئیر ،  خطرات اندرونی ہوں یا بیرونی، ہم نے ہمیشہ  شواہد اور حقائق کے ذریعے اْن کی نشاندہی کی اور کامیابی سے مقابلہ بھی  کیا اور اس چیز کو اب دْنیا  ما ن رہی ہے۔ جن چیلنجز کا میں نے ابتدائ￿  میں ذکر کیا ہے اْس حوالے سے سیکورٹی   کے شعبہ میں جو اقدامات کیے گئے ہیں اْن میں سے چند اہم کا ذکر ضروری ہے۔  ۔ آپریشن ردّالفساد میں قومی اپروچ کے ذریعہ  پوری دھائی کی کامیابیوں کو مستحکم کیا گیا۔ ۔ اس آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی جس میں ان کے سہولت کاروں ،معاونین  اورغیر قانونی اسلحہ و بارود کا بڑی حد تک خاتمہ کیا گیا۔ آپریشن ردّالفساد کے تحت تین لاکھ اکہتر ہزار سے زیادہ 371,173 انتیلی جنس بنیادوں  پر  آپریشن کئے گئے  کئے گئے۔22فروری2017سے اب تک۔72ہزار سے زائد اسلحہ،5ملین ایمونیشن  اور449ٹن بارودریکور کیا گیا۔2007 / 2008میں قبائلی اضلاع  پر صرف 37%علاقے پر ریاستی عمل داری  رہ گئی تھی۔ آج الحمداللہ تمام قبائلی  اضلاع ، مکمل طور پر خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ دہشت گردی کے بڑے واقعات میں 2019 کی نسبت 45%کمی واقع ہو ئی۔ جبکہ دہشت گردی کے واقعات 2013میں اوسطاََ  90 فیصد سے کم ہو کر 2020میں صرف 13رہ گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ سال، ملک بھر میں 50فیصد سے زائدخطرات کا خاتمہ کیا بھی کیا۔ اگر پچھلی دو  دہائیوں کی دہشت گردی کے واقعات کی  جانی نقصان  کا جائزہ لیں تو 2013میں 414  اموات  جبکہ2020 میں   98  اموات ہوئیں۔ جس میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔  خودکش حملوں میں 97%واضح کمی دیکھنے میں آئی۔کراچی جو کہ آبادی کے لحاظ سے دْنیا کے بڑے شہروں میں 12ویں نمبرپر ہے اور پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔ 2014میں  کراچی کرائم انڈیکس میں دْنیا میں چھٹے نمبر پر تھا۔ 2020 میں  بہتر ہو کر 103 نمبرپر آچکا ہے۔یہ دنیا کے ترقی یافتہ   اور برے دارلحکومتوں سے بہتر امن وامان کی صورتحال میں ہے۔ کراچی میں دہشت گردی میں 95%، ٹارگٹ کلنگ98%،بھتہ خوری 99% جبکہ اغواء  برائے تاوان کے واقعات میں 98% کمی واقع ہوئی ہے۔ بارڈر مینجمنٹ کے تحت بارڈر ٹرمینلز،  سکینرز،  بائیو میٹرکس سسٹم، بارڈر پوسٹس  اور فینسنگ کے ذریعے امن و امان کی صورتحال میں  بہت بہتر  ہوئی ہے۔2611کلومیٹر پاک-افغان سرحد پر83%سے زائد کام مکمل کر لیا گیا ہے جو کہ انشا اللہ سال کے وسط تک ختم ہو جائے گا۔ جبکہ  پاک-ایران بارڈر پر37%سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے   اور اْمید ہے کہ اگلے ایک سال میں پایہ ء تکمیل پر پہنچ جائے گا۔۔مجوزہ1068 سرحدی قلعوں  میں 482سے زائد فورٹس تعمیر ہو چکے ہیں۔بارڈر کنٹرول اقدامات کے نتیجے میں بارڈر ٹرمینل کے ذریعے نقل و حرکت میں 33%اضافہ ہو ا ہے۔ باڑ کی وجہ سے انسداد سمگلنگ  اور غیر قانونینقل و حرکت  روکنے کے نتیجے میں صرف پچھلے6ما ہ میں،  48بلین کا آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔  اِس حوالے سے کسٹمز کا کردار قابلِ ستائش ہے۔  سرحد  کے کے عقبی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 55%کمی ہوئی جبکہ بارڈر ڈسٹرکٹس میں IEDsدھماکوں میں 16%کمی ہوئی ہے۔ مشرقی سرحد بالخصوصLOCپر ہندوستان کی اشتعال انگیزیوں میں اضافہ ہوا اور ہندوستان نے شہری آبادی کو خاص کر نشانہ بنایا جس میں معصوم بچے، خواتین اور بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔گزشتہ سال میں  تین ہزار ستانوے  جنگ بندی  کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔جن میں 28 معصوم افرادشہید اور257زخمی ہوئے۔ بالخصوص 2014ء  سے 2020ء میں ہندوستان کی  خلاف ورزیوں میں بے انتہااضافہ ہوا۔2019 میں سب سے زیادہ(3351)جبکہ 2018میں سب سے زیادہ  اموات (377) ہوئیں۔پاکستان آرمی نے ہندوستان کی خلاف ورزیوں کا ہمیشہ بھرپور جواب دیا ہے  جس کے نتیجے میں ہندوستان کو بھاری جانی اور مالی نقصان اْٹھانا پڑا۔ بھارت نے فوجی کاروائیوں میں ناکامی کے بعد پاکستان کے خلاف ہائی  ففتھ جنریشن   وار چھیڑی۔ہائبرڈ وار کے خطرے کے حوالے سے آرمی چیف نے ہمیشہ  بات  کی اور وقتاَ  فوقتاََ ہم آپ کو اس  خطرہ سے  آگاہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  ای یو  ڈس انفو لیب کی حالیہ رپورٹ کے نتیجے میں ناقابلِ تردید شواہد سامنے آچکے ہیں۔گزشتہ 20سالوں کے دوران پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی ہے اور ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا ہے۔ میں 1200سے زیادہ آپریشنز کے ذریعے  ہر قسم کی دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کیا۔18ہزار سے زائد دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نہ صرف قانون سازی کی گئی بلکہ ایک جامع حکمت عملی کے تحت ان تنظیموں کے خلاف ایکشن بھی کئے گئے۔ بین الاقوامی امن کی کاوشوں کیلئے  1100سے زائد القائدہ کے دہشت گردوں کو پکڑا  یا  مارا گیا۔70سے زائد ممالک کے ساتھ انتیلی جنس شئیرنگ  کی گئی اور اس دوران پاکستان نے 83000 سے زائد قربانیا ں دیں۔ جس میں 126  ارب  ڈالر ز کا معاشی نقصان اْٹھانا پڑا۔ اس کے برعکس اگر آپ دیکھیں کہ ہندوستان  دو  دہائیوں میں کیا کر رہا تھا تو ہندوستان نے مشرقی سرحد پر اشتعال انگیزیوں میں اضافہ کیا۔مقبوضہ کشمیر میں تقریباََ پچھلے  ڈیڑھ سال سے  تاریخ کا بدترین محاصرہ اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جاری ہیں اور فروری2019ئ￿  میں پاکستان کے خلاف جارحیت کی ناکام کوشش کی۔ ان تمام واقعات کے شواہد عالمی اداروں نے دْنیا کے سامنے رکھ دیے۔ ۔Financial Crimes Enforcement Network  کی  بھارت کے 44بینکس کی منی لانڈرنگ اور Terror Financing ،  UNHRCاور جینو سائیڈ واچ کی ہندوستان کی بدترین ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے چشم کْشا اِنکشافات یا حال ہی میں EU Disinfo Labکی رپورٹ چند ایک بڑے شواہد کے طور پر سامنے آچکے ہیں۔اس تمام جعلی نیٹ ورک کو دہلی سے سری واستو  نیٹ ورک چلا رہا تھا ۔جو جعلی این جی اوز ، تھنک تینک اور اس قسم کے فورمز اور جعلی میڈیا اداروں کے ذریعے اس مجرمانہ کو 15سال سے جاری رکھے ہوئے تھا۔ ان جعلی این جی اوز کے ذریعہ  اقوام متحدہ   اور یو این ایچ سی آرمیں مختلف پاکستان مخالف ایونٹ منعقد کرانا، اورپاکستان کی ساکھ کو متاثر کرنا شامل تھا۔  اس پروپیگنڈے کی ساکھ بنانے کیلئے،  ہندوستان کی نیوز ایجنسی اے این آئی کے ذریعے دیگر تمام   جعلی  میڈیا  اداروں پر وائرل کیا جاتا۔جسے مین سٹریم   اور سوشل میڈیا کے ذریعے  حقیقی خبروں کے طور پر چلایا جاتا۔ ان کلیدی کرداروں میں سے ایک  ’’را‘‘ سے تعلق رکھنے والی اگلایا کمپنی ہے جو کہ ایک سائبر انٹیلی جنس اور ہیکنگ میں مہارت رکھنے والی   فرم ہے۔ EU Disinfo Lab  لیب ڈس انفو یورپی یونین نے  جن گروپس کا جائزہ لیا ہے اْس کے مطابق حقیقت میں یہ این جی اوز کسی اور مقصد کے لیے رجسٹرڈ کرائی گئیں لیکن  ان کو پاکستان مخالف بیانیے کیلئے استعمال کیا گیا۔اس15سالہ  مہم کے کا جائزہ لیا جائے تو اس پاکستان کو چھ شعبوں ، دہشت گردی،معیشت، سفارت کاری ، انتشار پھیلانے، کشمیر کاز، اور سماجی شعبے مین نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔کشمیر کے محاز پر ایک طرف تو بھارتی جارحیت کو چھپایا گیا اور دوسری طرف  آرتیکل  370کے خاتمے کے حوالے سے بے تحاشہ جعلی مواد اور کشمیریوں کے حق میں بہتر قرار دینے کی کوشش کی گئی۔۔ یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کو ذاتی حیثیت میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا گیا۔ تاہم انہیں EUکا آفیشل  نمائندہ ظاہر کیا گیا۔۔ اقلیتوں اور خواتین کیحوالے سے  ای یو کرانیکل کے ذریعے جھوٹا پراپیگنڈہ کیا گیا اور پھر اس کی بْنیاد پرEUپارلیمنٹ میں پاکستان مخالف  قرار دادیں پیش کی  گئیں۔ان تمام ایریاز میں پاکستان کے عالمی  تشخص کو نقصان پہنچایا گیا اور اقوام متحدہ  اور یوروپی یونین جیسے معتبر اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی اور پاکستان مخالف ایجنڈے کو فروغ دیا گیا۔۔ EU Disinfoکی رپورٹ کے مطابق اگر اس   مہم کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو1سے6کے  سکیل میں یہ 6کا اسکور حاصل کر تی ہے جو کہ پراپیگنڈے کی سب سے اونچی سطح ہے۔ جس کا دائرہ کار پالیسی لیول اور شدت پسندی پھیلانے تک وسیع ہے۔یہ سب کچھ ہندوستانی ریاست کی پْشت پناہی کے ذریعے جاری تھا۔انہوں نے انگریزی زبان میںکہا کہThis should serve as a call to action for decision-makers to put in place relevant framework to sanction actors and governments abusing international institutions, influencing decision makers and misleading world opinion. ہندوستان کی پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت ایک Dossierکی صورت میں دْنیا کے سامنے لائے گئے ہیں۔ خیبر پی کے  اور بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ خیبر پی کے اور بلوچستان جو خاص طور پر دہشت گردی کا شکار رہے، وہاں اب ترقیاتی منصوبے جاری ہیں، بلوچستان میں کچھ عرصے سے ملک دشمن قوتیں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی در پر ہیں، تاہم پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ان عزائم کو ناکام بنانے کے لیے شب و روز مصروف ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’کلیئر اینڈ ہولڈ‘ کے مراحل سے گزرتے ہوئے اب ہم ’بلڈ اینڈ ٹرانسفر‘ کے مراحل کی طرف گامزن ہے، اسی سلسلے میں بلوچستان میں 601 ارب روپے کی لاگت کے 199 ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا چکا ہے، جس میں صحت کے 10، تعلیم کے 18، زراعت کے 20 اور ٹرانسپورٹ کے 42 اہم منصوبے شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح خیبر پی کے کے قبائلی اضلاع میں 31 ارب روپے کی لاگت سے 883 ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوچکا ہے، جس میں تعلیم کے 268، صحت کے 70، کمیونکیشن انفرااسٹرکچر کے 15، آب پاشی کے 30 بڑے منصوبے شامل ہیں۔دوران بریفنگ کرونا وائرس سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم نے بطور قوم اس چیلنج کا حکمت اور دانش مندی سے مظاہرہ کیا، پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود این سی سی کے ماتحت این سی او سی کے ذریعے بھرپور ردعمل دیا جس کا اعتراف دنیا کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹرز ، پیرامیڈکس، ہیلتھ ورکرز اور وہ تمام ادارے اور افراد جو اس وبا کے خلاف نبرد آزما ہیں وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔پاکستانی میڈیا کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا نے اس وبا کے دوران عوام کی آگاہی کیلیے اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر خدمت کی اور عظیم مثال قائم کی۔مزید یہ پاکستانی میڈیا نے جس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ بھارتی پروپیگینڈے اور پاکستان کو درپیش خطرات کو بے نقاب کیا اس کے لیے بھی پاکستانی میڈیا مبارک باد کا مستحق ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس کا اختتام ان جملوں پر کیا کہ دشمن ہمیں ناکام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور  ہمیں تقسیم کرنے کے درپے ہے۔ ہم سب کا انفرادی و اجتماعی کردار اور ذمہ داریاں ہیں۔ منزل ایک ہے ۔پاکستان کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ڈی جی آئی  پی آر نے اپنی مفصل پریس کانفرنس مین سب ہی موضوعات کا احاطہ کیا۔ دفاع و سلامتی کے علاوہ انہوں نے سیاسی سوالوں کے  بھی  کھل کر  اور خوشگوار جواب دیئے۔ پی ڈی ایم  کے الزامات اور راولپنڈی آنے   کے بیانات پر انہوں نے ہلکے  پھلکے جوابات  دیئے اور کسی تلخی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایرانی  خبر رساں ادارے کے نمائندے  کی طرف سے سلامتی کے حساس موضوع پر  شافی جواب دیا لیکن  غیر ملکی تعلقات پر انہوں نے کہا کہ  یہ دفتر خارجہ کا موضوع ہے جس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن