کمبخت موت کو موت کیوں ن ہیں آ جاتی 

Jan 12, 2021

ڈاکٹر عارفہ صبح خان

انا، غرور، سرکشی، طاقت اور اختیارات کی تمامتر انتہائیں موت کے ایک جھٹکے سے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ درد کی تمام انتہائیں موت سے لپٹ کر دم توڑ جاتی ہیں۔ محبتوں کے سارے آسمان اور خزانے موت کے منہ میں جا کر فنا ہو جاتے ہیں۔ اللہ نے جب دنیا بنائی تو زندگی کے پہلو سے موت بھی جو ڑ دی۔ جیسے خوشی سے غم کاٹانکا لگا دیا۔ روشنی کے ساتھ اندھیرا کر دیا۔ دولت کا منہ چڑانے کے لئے غربت لا کھڑی کی۔ جنت کے ساتھ جہنم تخلیق کر ڈالی۔ انسان کے ساتھ شیطان بھی پیدا کر دئیے۔ ایک مرتا ہے تو دو پیدا ہو جاتے ہیں۔ زندگی کی عجیب و غریب فلاسفی ہے۔ زندگی کا راز آج تک کوئی نہ جان سکا اور موت کیا ہے، بے بسی کی آخری حد ہے کہ بڑے سے بڑا، تونگر، طاقتور سے زیادہ طاقتور اور چالاک سے چالاک ترین بھی موت کے سامنے لاچار ہے۔  2020ء درد و کرب میں ڈوبا ہوا سال رہا۔ اسکے ختم ہونے پر سب نے سُکھ کاسانس لیا۔ نئے سال سے سب نے امیدوں اور توقعات کا نیا جہان آباد کر لیا تھا۔ سال کے پہلے دن ہی پاکستان میں لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد مر گئے۔ کچھ طبعی موت مرے اور کچھ غیر طبعی موت مارے گئے۔ یکم جنوری 2021ء کو فواد چوہدری نے ایک بیان داغا تھا کہ2021ء میں نہ کرونا رہے گا اورنہ پی ڈی ایم!!لوگوں کے لیے تو یہ خوشخبری والی بات ہی تھی کیونکہ ہر شخض کرونا سے عاجز آ چکا تھا اور پی ڈی ایم کی ڈھکوسلہ بازی سے بھی۔ بس اقتدار پر شب خون مارنا انکا اصل ایجنڈا ہے۔ جس دن اقتدار ان کے ہاتھ میں آگیا تو یہ ایکدوسرے کے جانی دشمن بن جائیں گے اور چاہیں گے کہ سارا قومی خزانہ کود ہڑپ کر جائیں۔ اول تو ’’وزارتِ عظمیٰ‘‘ پر ہی سوکنوں کی طرح لڑ مریں گے۔ دوسری طرف حکومت ہے عوام کو ہر طرح کے بحران اور خلجان میں مُبتلا کیا ہے۔ ابھی تین روز قبل ملک اندھیروں میں ڈبو دیا۔ بجلی کا طویل بریک ڈائون کر کے حکومت نے سارا سسٹم بٹھا دیا اور حیرت ہے کہ بجلی کے وزیر صاحب سوئے پڑے رہے۔ اپنی غلطیوں کے اعتراف اور معذرت کے بجائے وہی رونا شروع کر دیا کہ ماضی کی حکومتوں کا قصور  ہے۔ سابقہ حکومتوں نے کچھ نہیں کیا۔ ابھی عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جی بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف بیس لاکھ پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ ایک واشگاف جھوٹ ہے حکمران اکثر یہی روتے رہتے ہیں کہ بیس لاکھ پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں حالانکہ ہر پاکستانی ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے۔ بو ڑھا جوان ،عورت مرد، معذور اپاہج یتیم بیوہ، بیروزگار، غریب، مقروض بلکہ بچہ بچہ ٹیکس دیتا ہے۔ نومولود بچے ہی نہیں، مائوں کے پیٹ میں آدھے ادھورے بچے بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ دوائوں، ہسپتالوں، فیسوں اور ہر تھوڑے سے سفر کے بعد ٹول ٹیکس، ماں اگر ایک بسکٹ یا چپس بھی  پچاس روپے کا خرید کر کھاتی ہے تو اُس کا بھی ٹیکس ادا کرتی ہے پاکستانی بچے بھی ٹیکس زدہ اور مقروض پیدا ہوتے ہیں۔ ان سب مصائب و آلام میں فواد چوہدری کی بات تو دل کو لگی لیکن جیسا کہ حکمرانوںاور سیاستدانوں کے پُھسپھسے بیانات اور انتہا درجے کے جھوٹے وعدے ہوتے ہیں، اسی طرح فواد چوہدری کا یہ بیان بھی سال کے پہلے دن ہی سال کا پہلا، سب سے جھوٹا بیان ثابت ہوا ۔ اس دن بھی کرونا سے  67افراد جاں بحق ہوئے۔ آگ لگنے، گیس پھٹنے، روہی نالہ سے چار افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ ٹریفک حادثات میں 28 لوگ مرے، سال کے پہلے دن ہی ڈیڑھ سو سے زائد افراد مر گئے۔ اگلے دن اسامہ ستّی کو پولیس نے  22گولیاںمار کر قتل کر دیا۔ سیاست، علم و ادب، ثقافت صحافت سے لوگوں کے مرنے کی خبریں آنے لگیں۔ صحافت میں اچانک ہی رئوف طاہر کے مرنے کی خبر نے ہر طرف اداسیاں بکھیر دیں۔ ہزارہ قبیلہ کے گیارہ افراد کا قتل بہت ہی بھیانک خبر ثابت ہو ئی۔ معروف شاعر نصیر ترابی کی موت سے اہل و ادب مغموم ہو گئے۔ یاسین وٹو جو منجم تھے اور لوگوں کو اُن کی زندگیوں، قسمتوں اور موت کا حال بتاتے تھے۔ ہر ہفتہ زائچہ بنا کر دنیا کو اُن کے نصیبوں کا لکھابتاتے تھے، وہ بھی مر گئے۔ اس سال سوات میں ہمارا ایک نوجوان لڑکا عبدالصمد اور اسکا بھائی فوت ہو گیا۔ عبدالصمد سرخ سفید اونچا لمبا سمارٹ اور ہنس مکھ لڑکا تھا۔ کل یہ خبر سن کر دل دہل گیا۔ مجھے اُسکا پیارا مسکراتا چہرہ یاد آرہا تھا۔ وہ بالکل صحت مند تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے گھر آیا تھا۔ جب میں سوات جائو ں گی تو ان کی والدہ کا درد سے بھرا چہرہ کیسے دیکھ سکوں گی۔ اللہ انہیں صبرو جمیل عطا کرے لیکن کیا انھیں صبر آ سکے گا؟موت زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ موت کے پنجے اتنے موزی اور کاری ہوتے ہیں کہ کلیجہ نوچ کر رکھ دیتے ہیں۔ موت کے سامنے ہر طاقتور اور سرکش بالکل بے بس لاچار ہے۔ موت کسی کو کسی بھی طرح آ سکتی ہے۔ خدا نے موت بنا کر انسان کو بتا دیا ہے کہ اُس کی اوقات صرف ایک سانس میں اٹکی ہے۔ اے خدا۔۔۔۔۔تو نے انسان کو ایکبار ہی تو دنیا میں بھیجا ہے پھر اُسے سو سال جینے کا حق تو دنیا چاہیے تھا۔ انسان کو تو موت آ جاتی ہے لیکن اس کمبخت موت کو کبھی موت کیوں نہیں آتی میرے خدا؟؟؟

مزیدخبریں