مجھے یاد نہیں رئوف طاہر سے پہلی بار کب ملاقات ہوئی لیکن مجھے یاد ہے جب میں نے روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد میں ملازمت اختیار کی تو ان سے شناسائی ہو چکی تھی ان کا شمار لاہو ر کے متحرک صحافیوں میں ہوتا تھا جو نظریاتی محاذ پر پیش پیش تھے غالباً انہوں نے 1995ء میں روزنامہ نوائے وقت جائن کر لیا تو ایک ادارہ میں کام کرنے سے زیادہ نظریاتی ہم آہنگی ہمارے درمیان دوستی کو مستحکم کرنے کا باعث بنی پھر ہم دونوں بڑی دیر تک پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور)سے وابستہ رہے جس کا قیام ہی نظریاتی بنیادوں پر عمل میں لایا گیا نظریاتی ہم آہنگی ہماری دوستی کو تقویت دینے کاباعث بنی ۔ وہ ’ نوائے وقت لاہور میں ’’پولیٹیکل رپورٹر تھے اور ’جمہور نامہ‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کے کالموں کی ایک خوبی یہ بھی تھی ان میں جہاں مستقبل کی سیاسی منظر کشی کی جاتی تھی وہاں ان کی تحریروں میں ماضی کے اہم واقعات کی جھلک بھی نظر آتی تھی ان کا شمار لاہور کے بڑے سیاسی تجزیہ کاروں میں شمار ہوتا تھا ان کی تحریروں سے اخذ کئے گئے نتائج سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا ان کا اٹھنا بیٹھنا اپنے وقت کے بڑے سیاست دانوں سے تھا انہیں نوبزادہ نصراللہ خان کی محفل آرائی کا اعزاز حاصل تھا تو وہ میاں نواز شریف کے دستر خوان کے بھی خوشہ چین تھے اگرچہ ان کا تعلق دائیں بازو کے اخبارنویسوں سے تھا اور ان کی شناخت بھی یہی تھی لیکن اس ’’باغ و بہار شخصیت‘‘ کے مالک نے ’’ بائیں بازو ‘‘کے جغادریوں میں بھی عزت و احترام کی جگہ بنا رکھی تھی اللہ تعالیٰ نے ان میں خوبصورت کالم لکھنے کی صلاحیت پیدا کی تھی ان کے کالموں میں الفاظ کا چنائو انتہائی احتیاط سے کیا جاتا تھا وہ قا ری کو اپنے ساتھ لے کر چلتے تھے ان کی تحریروں میں روانی پائی جاتی تھی کہیں الجھائو نہیں ہوتا تھا ۔ میرا ان سے تعلق کم و بیش چار عشروں پر محیط ہے اس میں وہ عرصہ بھی شامل ہے جو انہیں روزگار کی تلاش میں سرزمین حجاز لے گیا رئوف طاہر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں اردو نیوز‘ اور اردو میگزین‘ کے مدیر ہو گئے وہ کم و بیش 10سال تک سعودی عرب رہے وہ جدہ میں پاکستانی صحافیوں کے فورم کے روح رواں تھے جب تک میاں نواز شریف سعودی عرب رہے مجھے کم و بیش ہر سال سعودی عرب جانے کا موقع ملتا رہا جدہ میں پاکستانی صحافیوں کی تنظیم کی جانب سے میرے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا جاتامرحوم رئوف طاہر سے میری آخری ملاقات گذشتہ ماہ سعود ساحر کی وفات پر ہوئی میں نے جنازہ کی ادائیگی کے بعد مجیب الرحمنٰ شامی اور رئوف طاہر کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا میرا گھر ڈی ایچ اے2 راولپنڈی سے کچھ دور میڈیا ٹائون ہے چونکہ مجیب الرحمن شامی نے لاہور واپس جانا تھا اس لئے مجھے ان کی تواضع کا موقع نہ مل سکا کیا خبر تھی کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے رئوف طاہر مرحوم اکثر و بیشتر کالم لکھتے وقت ماضی کے واقعات اور تاریخی حوالوں کے بارے میں ٹیلیفون پر بات چیت کرتے رہتے تھے ہم دونوں یادیں تازہ کرتے تھے اور وہ واقعات کو درست شکل میں لکھنے کی کوشش کرتے ۔ وہ ماضی کے اہم واقعات کے عینی شاہد تھے انہوں نے متعدد صحافتی ایڈونچر کئے شاندار تحریر یں ان کا اثاثہ ہیں دیانت اور شرافت ان کا طرہ امتیاز تھا۔انتہائی نفیس انسان تھے۔ دوستوں کے دوست۔ اسلام اور نظریہ پاکستان کے مورچہ کے ’’پہریدار‘‘ تھے اسلام اور پاکستان دشمنوں کے لئے کشمیر برہنہ تھے عمر بھر پاکستان اور اسلام دشمنوں کے خلاف سینہ سپر رہے۔ ان کی وفات سے پاکستان ایک بلند پایہ صحافی سے محروم ہو گیا ہے مرحوم رئوف طاہر شاندار کالم لکھتے تھے ان کی تحریر میں پختگی تھی ان کے کا لموں کا طرہ امتیاز یہ تھا جب وہ حال میں پیش آنے واقعات بیان کرتے تو وہ ان کا تقابل ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے بھی کرتے ۔ان کے میاں نوازشریف سے ذاتی سطح پر تعلقات قائم تھے میاں نواز شریف جدہ میں ’’جلاوطنی ‘‘ کے ایام جن چند صحافیوں سے محفل آرائی کرتے تھے ان میں رئوف طاہر، امیر محمد خان اور شاہد نعیم کے نام نمایاں ہیں گذشتہ سال لاہور میں ممتاز صحافتی ادریس بختیار کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا تو اس تقریب کے سٹیج سیکریٹری رئوف طاہر ہی تھے۔ وہ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے سیکریٹری تھے چونکہ رئوف طاہر باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے روایتی انداز میں تقریب کی نظامت کے فرائض انجام دیتے تھے تقریب کے سامعین کو بور نہیں ہونے دیتے شرکاء تقریب کو اپنے ساتھ لے کر چلتے تھے اب تقریبات کی رونق ہم سے بہت دور چلی گئی جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا وہ ہمیں اداس چھوڑ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی ہے ۔رئوف طاہر یاروں کے یار تھے جب کبھی مجھے لاہور آنا ہوتا تو ان سے ملاقات ہوتی یا ان کا اسلام آباد کا رخت سفر بندھتا تو ان سے محفل آرائی ہوتی سینئر صحافی سعود ساحر ، شکیل ترابی ، محسن رضا خان اور جاوید قریشی کے ساتھ محفل سجتی پہروں ملکی سیاست پر تبادلہ خیال ہو تا ہم دونوں میں ایک قدر مشترک تھی ہم دونوں کا خمیر اسلامی جمعیت طلبہ سے اٹھا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم دونوں نواز شریف کی محبت کا ’’اسیر ‘‘ ہو گئے سید ابو الاعلی مودودی ؒ کی تعلیمات نے انہیں باکردار انسان بنایاہم بھی سید ابو الاعلی مودودی ؒ کو اپنا مرشد سمجھتے تھے لیکن تادم تحریر دونوں اطراف کی محبت کا شکار ہونے کی وجہ سے فیصلہ نہیں کر پایا کس کو چھوڑوں اور کس کو نہ چھوڑ وں ؟ ۔رئوف طاہر درویش صفت انسان تھے اپنی دھن کے پکے جس بات کو صحیح سمجھتے اس پر ڈٹ جاتے
ان کا تعلق ہارون آباد ضلع بہاولنگر سے تھا وہاں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہے وہاں سے لاہور کیا آئے یہیں کے ہو کر رہ گئے اور دوستوں میں محبتیں بانٹتے رہے ۔ رئو ف طاہر سرزمیں حجاز میں کم و بیش 10سال تک کام کرتے رہے جب وہاں سلسلہ روزگار ختم ہوا تو پاکستان واپس آگئے کچھ عرصہ ’’بے روزگار ‘‘ رہنے کے بعد انہیں ڈائریکٹر جنر ل پبلک ریلیشنز پاکستان ریلویز تعینات کر دیا گیا میں نے سنا ہے رئوف طاہر کے جنازہ میں خواجہ سعد رفیق کے سوا کوئی قد آور مسلم لیگی لیڈر نہ تھا ان کا جنازہ جاتی امرا سے چند کلومیٹر دورلیک سٹی کی جامع مسجد میں ہو ا تھا ۔ البتہ مسلم لیگ (ن) والوں نے میاں نواز شریف کی طرف سے ٹویٹر پر ایک تعزیتی بیان جاری کر دیا جس میں کہا گیا وہ رئوف طاہر کی موت سے اپنے ایک اچھے دوست سے محروم ہو گئے ہیں ۔ دوستوں کے مرنے پر ٹویٹ تو جاری نہیں کئے جاتے شریف خاندان کے کسی فرد کو رئوف طاہر کے ہاں خود جا کر تعزیت کرنی چاہیے تھی لیکن اب تو ٹویٹر نے مصروف لوگوں کی مشکل دور کر دی ہے وہ ٹویٹ کے ذریعے اپنے جذبات و احسات کا اظہار کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔