ڈاکٹر ساجد حسین
میڈیا کی خبروں سے توایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کا بیشتر حصہ قبضہ مافیاء کی زد میں ہے،اور یہ قبضہ مافیاء بااثر ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے اسکے خلاف ریاست کوٹھوس کارروائی کرنے کی جرات تک نہیں ہوسکی۔وقت گزرنے کیساتھ ساتھ قبضہ مافیاء کے قبضے اس قدر پھلتے پھولتے گئے کہ بات اس نہج تک پہنچ گئی کہ ہرطرف قبضہ مافیائ کا شوربرپاہے اور اس مافیاء کے سرکاری زمینوں کیساتھ ساتھ ملک کے مظلوم عوام کی اراضی بھی اب محفوظ محسوس نہیں ہوتی۔بدقسمتی سے مذکورہ مافیاء کو سیاسی اشرافیہ کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔اس بات کا واضح ثبوت وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان ہے جس میں انہوں نے کھل کر اس بات کو بیان کیا کہ سیاسی اشرافیہ کی مدد سے لینڈ مافیا نے ریاستی اراضی بشمول جنگلات کی اربوں روپے کی زمین پر قبضہ کررکھا ہے۔ اپنی ٹوئٹ میں وزیر اعظم عمران خان نے کہاکہ پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں کمی کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی قیمتی اراضی پر قبضہ ہے، جب ہم نے لینڈ ریکارڈ کوڈیجیٹلائز کرنے کے لیے کیڈیسٹریل میپنگ کی تو کافی مزاحمت کا سامناکرناپڑا۔وزیراعظم نے کہا سرکاری اراضی کی میپنگ کے پہلے فیز میں حیران کن حقائق سامنے آئے،قبضہ شدہ سرکاری اراضی کی مجموعی ویلیو 5 ہزار 595 ارب روپے ہے، جب کہ جنگلات کی قبضہ شدہ زمین کی ویلیو ایک ہزار 869 ارب روپے ہے۔ وزیراعظم صاحب کابیان سامنے آنے کے بعدیہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہ مافیاء اتنازیادہ تگڑا ہے کہ اسکی حوصلہ شکنی کرنے اور ان سے ملک کی قیمتی اراضی واگزار کروانے کے لئے جامع اورٹھوس حکمت عملی فوری اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس قبضہ مافیاء کے تگڑے پن کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ 2010ء میں جب میاں محمد شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے توپنجاب گورنمنٹ نے بے روز گاری میں کمی اور قبضہ مافیاء کی حوصلہ شکنی کرنے کی غرض سے زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو جنگلات کی ویران پڑی سرکاری اراضی پھل داردرخت لگا کر آباد کرنے کے لئے الاٹ کرنے کا اعلان کیاتھا۔اس وقت کی پنجاب حکومت نے 2مرحلوں میں گریجوایٹس کے درمیان یہ اراضی تقسیم کرنے کے لئے اخبار اشتہار کے بعد قرعہ اندازی کروانے کا فیصلہ کیا جو کہ مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں منعقد کی گئی۔پہلے مرحلے میں زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو نصف نصف مربع جبکہ دوسرے مرحلہ میں قرعہ اندازی کے دوران فال نکلنے والے فی گریجوایٹ کو 25ایکڑ الاٹ کئے گئے مگر بدقسمتی سے بااثر قبضہ مافیاء نے حکومت کے اس احسن اقدام کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی روک دیا۔بے روزگار زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس نے عرصہ11سال کے دوران محکمہ ریونیو اور اعلیٰ آفیسران کے دفاتر کے طواف کرنے کے علاوہ مختلف فورمز پرحکومت سے الاٹ شدہ زرعی اراضی کے حصول کا پرزور مطالبہ بھی کیا مگر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔اس بارے میں متعدد متاثرین سے کئی بار غیر رسمی بیٹھک ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ مذکورہ غیرآباد زمینوں کو آباد کرنے کے لئے اخباراشتہار کے بعد صوبائی حکومت کوصوبہ بھر سے5000ہزاردرخواستیں موصول ہوئیں جبکہ قرعہ اندازی کے ذریعے 2000خوش نصیبوں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کی گئی مگر بااثر قبضہ مافیاء کی وجہ سے 40%ہی گریجوایٹس زمینیں حاصل کرسکے۔انہوں نے بتایا کہ نشاندہی کردہ زمینوں کو آباد کاری کے لئے حاصل کرنے کی کوشش میں متعدد افراد اپنی زندگیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ انگریز سامراج کے غلامانہ نظام کے تحت گھوڑی پال،بھیڑ پال اور اونٹ پال سکیم وغیرہ کی مد میں الاٹ کی گئی زمینیں ابھی بھی صوبہ کے سینکڑوں افراد کے قبضہ میں ہیں اور ان کا ملکی وقومی ترقی میں صرف اتنا ہی کردار ہے کہ وہ سارادن ڈیروں میں بیٹھ کر آفیسر شاہی اور پولیس کی ٹاوٹی کے علاوہ ملک کی افرادی قوت میںزبردست کمی کا باعث بن رہے ہیں مگر پڑھے لکھے گریجوایٹس کو الاٹ شدہ زمینیں 11سال گزرنے پر بھی نہیں مل سکیں۔جہاں تک مجھے یادپڑتاہے کہ میرے آبائی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی مذکورہ سکیم کے تحت گاوں 300گ ب میں کچھ زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو جنگلات کی ویران پڑی اراضی آباد کرنے کے لئے الاٹ کی گئی تھی مگر بااثر قبضہ مافیاء نے رکاوٹ بنتے ہوئے اس سکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی تاریخ کے کوڑے دان کی نظر کردیا۔وزیراعظم عمران خان نے اس ایشو پر اپنے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ قبضہ مافیاء اوران کے سہولت کاروںکے خلاف بھرپور ایکشن لیں گے۔اب دعا ہے کہ یہ ایکشن شوگر،آٹااور گندم مافیاز کے خلاف لئے گئے ایکشنز جیسابالکل نہ ہو۔ جنگلات کی ویران پڑی زمینیںپھل دار درخت اگا کرآباد کرنے کی غرض سے زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو الاٹ کرنے کے متعدد فوائدحاصل ہوسکتے ہیں،مثال کے طور پر سب سے بڑھ کر قبضہ مافیاکی حوصلہ شکنی،بے روزگاری میں کمی،ملک کی افرادی قوت اور خوبصورتی میں اضافہ،گلوبل وارمنگ میں کمی اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ شامل ہیں۔اب حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے منشور پر قائم رہتے ہوئے الاٹ شدہ زمینیں قبضہ گروپوں سے واگزار کرواکر زرعی اور ویٹرنری گریجوایٹس کو لیزپر فراہم کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پرعملی اقدامات اٹھائے جائیںتاکہ بیروزگاری میں کمی ہونے کیساتھ ساتھ مگرمچھوں جیسے قبضہ گروپوں کا حقیقت میں خاتمہ ممکن ہوسکے۔۔۔
گریجوایٹس قبضہ مافیاء کی زد میں
Jan 12, 2022