برطانوی کالجز اور یونیورسٹیز میں زیرتعلیم بعض وہ پاکستانی نژاد طلبہ و طالبات جو اپنے والدین کے آبائی وطن پاکستان کے روزافزوں شدت سے بگڑتے سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی حالات کے بارے میں اپنے آپ کو باخبر رکھنے اور والدین کی فکرونظر کے مخصوص زاویوں کی روشنی میں پاکستان اور برطانیہ کے جمہوری رویوں کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں‘ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور اقتصادی حالات کے بارے میں انہیں ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو باالعموم گھر والدین سے وہ حاصل نہیں کر پاتے۔ ایسے سٹوڈنٹس کی ایسی سوچ کا اندازہ اگلے روز مجھے اس وقت ہوا جب میں لندن کی بین الاقوامی شہرت یافتہ انڈیا آفس لائبریری میں جنوب ایشیائی زبانوں کے شعبہ میں برطانوی سموگ پر برطانوی مصنف کی لکھی کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھا۔ میرے سامنے والی نشست پر ایک طالبہ اور ایک طالب علم جو بغیر ماسک کے تھے‘ کوئی نوٹس وغیرہ لکھ رہے تھے۔ میں نے چونکہ ماسک لگا رکھا تھا‘ اس لئے وہ مجھے بار بار دیکھ رہے تھے۔ طالبہ کے انگریزی لہجے اور شکل و صورت سے مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ دونوں برطانوی پاکستانی ہیں۔ طالبہ نے اچانک معذرت کرتے ہوئے پوچھا‘ کیا آپ پاکستانی ہیں‘ جی ہاں! میں نے جواب دیا۔ مگر آپ دونوں بھی تو پاکستانی دکھائی دے رہے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ ہم لندن میں پیدا ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے والدین خالصتاً پاکستانی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو آپ کو پھر اپنی اردو زبان میں بات کرنی چاہیے۔ میں نے ازراہِ تفنن پوچھا۔ اردو آتی ہے اور نہ ہی مم ڈیڈ نے بولنا سکھائی ہے تاہم اردو میں کی انکی بات سمجھ میں تو آجاتی ہے مگر انہیں جواب دینے کیلئے ہمیں انگریزی کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے کہ ہماری مادری زبان اب انگریزی ہے۔ مگر آپ تو اب بیچلرماسٹر کی جانب رواں دواں ہیں‘ اردو سیکھ کیوں نہیں لیتے؟ میرے اس سوال پر دونوں نے ہلکا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں اردو سیکھنے کی جانب مائل کر رہے ہیں‘ بتائیے کہ جس ملک میں (پاکستان) اردو کو قومی زبان بنانے کا 76 برس قبل عہد کیا گیا تھا‘ وہاں تو آج بھی انگریزی زبان کو ہی اعلیٰ ترین زبان تصور کرتے ہوئے طلبہ اور طالبات کو لائق فائق اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ مقابلے کے امتحانات اور انگلش میڈیم سکول کالجز میں انگریزی بولنے اور انگریزی لکھنے والوں کو ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ والدین سے گھروں میں انگریزی میں بات چیت کرنیوالے بچوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور آپ ہمیں انگلستان میں اردو زبان کی آبیاری کا درس دے رہے ہیں۔ سوری! آپکے بارے میں کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کیا جاب کرتے ہیں‘ طالبہ نے پوچھا۔
شعبہ¿ صحافت کی مزید منازل طے کر رہا ہوں تاہم میرے بارے میں آپ اگر مزید جاننا چاہیں تو اسی لائبریری کے اردو شعبہ¿ لسانیات میں میری حال ہی میں شائع ہونیوالی تیسری کتاب ”ولایت نامہ“ موجود ہے۔ میری خواہش ہوگی کہ اپنے والدین کی معاونت سے اس کا آپ ضرور مطالعہ کریں تاکہ آپ کو زبان کی اہمیت‘ کلچر اور آزادانہ ماحول کی اچھائیوں اور برائیوں کا علم ہو سکے۔ ”واﺅ‘ ونڈرفل! آپ مصنف بھی ہیں۔“ ایک سچا پاکستانی ہونے پر ہمیں بلاشبہ آپ پر فخر ہے۔ طالبہ اور طالب علم نے میرے لئے تعریفی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا۔ ہم آپ سے اب یقیناً یہ جاننا چاہیں گے کہ پاکستان کے بدلتے سیاسی نظام میں بنیادی رکاوٹ کیا ہے۔برطانیہ کے ایک کثیرالاشاعت انگریزی روزنامہ میں ہم نے یہ پڑھا ہے کہ پاکستان میں اب کسی ٹیکنوکریٹ ٹائپ حکومت کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ ٹیکنوکریٹ حکومت کیا ہوتی ہے؟ دونوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔ میں نے کہا، پہلی بات تو ذہن نشین کرلیں کہ آئین پاکستان میں ٹیکنوکریٹ نظام کی قطعی گنجائش نہیں۔ جمہوریت اور ٹیکنوکریسی میں یہی سب سے بڑا فرق ہے کہ جمہوریت میں عوام کی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اسی بنا پر آئین حکومت قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسی برٹش لائبریری میں آئین پاکستان کی متعدد جلدیں موجود ہیں‘ آپ انکا بھی مطالعہ کریں تاکہ آپکو جمہوریت اور ٹیکنوکریٹ حکومتوں کے فرق کے بارے میں مزید آگہی ہو سکے۔ پاکستان میں کئی برس قبل اس وقت کے سابق جنرل فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں البتہ ٹیکنوکریٹ نظام کو متعارف ضرور کرایا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام پر اس وقت کے 22 امیر ترین خاندان مسلط کر دیئے گئے اور یہی وہ بنیادی غلطی تھی جس سے پاکستان میں معاشی محرومیوں کا آغاز ہوا جسکے اثرات تاہنوز موجود ہیں اور ملک آج متعدد بحرانوں کا شکار ہے۔ ٹیکنوکریٹ نظام کے بارے میں دوسری اہم بات یہ نوٹ فرمالیں کہ ”ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہوتے‘ اس بارے میں آپ اگر میری ذاتی رائے جاننا چاہیں تو ٹیکنوکریٹس نظام کے حق میں اس لئے بھی نہیں کہ اس سسٹم میں عوامی ووٹوں سے منتخب افراد کے بجائے شعبوں اور قومی اداروں کے ماہرین سے حکومت چلانے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ مزید اسکی مثال یوں سمجھ لیں کہ وی اے ٹی یا قومی معیشت پر آپکو اگر دسترس حاصل ہے‘ چارٹرڈ اکاﺅنٹینٹ یا آپ چارٹرڈ سرویئر ہیں، عالمی مالیاتی اداروں سے بات چیت کرنے اور معاشی دشواریوں پر زوردار موقف رکھنے کا ڈھنگ آتا ہے تو اس نظام میں آپ کو وزیر خزانہ‘ وزیر ہاﺅسنگ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح صحافت‘ تعلقات عامہ‘ کالم نگاری اور پبلک ریلیشنز کے دیگر اعلیٰ عہدوں میں آپ اگر وسیع تجربہ رکھتے ہیں تو آپ کا بطور وزیر اطلاعات و نشریات تقرر ہو سکتا ہے مگر اس سسٹم کا سب سے افسوسناک پہلو یہ کہ عوام اپنے سیاسی لیڈروں اور ووٹ سے قائم پارلیمنٹ پر اعتبار کرنا چھوڑ دیتی ہے جو جمہوریت کے سراسر منافی ہے۔ تفصیلات اور بھی ہیں جو پھر کبھی سہی‘ تاہم امید ہے ٹیکنوکریٹ سسٹم کا بنیادی ڈھانچہ آپ جان چکے ہونگے۔ میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا‘ آپ کا بے حد شکریہ۔ طالبہ نے آئندہ پھر یہیں کسی ملاقات پر اجازت طلب کرلی۔
اردو نہیں‘ انگلش ہماری زبان ہے
Jan 12, 2023