آج کے اس جدید دور میں جتنی اہمیت سماجی ذرائع مواصلات کو حاصل ہے اتنی روایتی ذرائع پیغام رسانی جن میں خط و کتابت، اخبارات، رسائل، ریڈیو، یا ٹیلی ویژن کو بھی حاصل نہیں۔ معلومات اب لہروں اور شعاعوں کی مانند ہیں اور ان کے کنٹرول پر ہر ایک کی اپنی آزاد ا±نگلی ہے، جو معلومات چاہے، سچی یا جھوٹی خود منتخب کرسکتا ہے۔ گویا معلومات کے اس بحر بیکراں میں ہر کوئی اپنا اپنا جال تھامے اپنی پسند کی، چھوٹی بڑی، اور طرح طرح کے رنگوں کی مچھلیاں پکڑنے میں مشغول ہے۔ بازار میں کئی طرح کے جال ہیں، خریدار پر منحصر ہے کہ وہ خود کس جال میں پھنستا ہے۔ ٹوئٹر بھی ہے اور فیس ب±ک بھی، انسٹاگرام بھی ہے تو یو ٹیوب بھی، ریڈڈٹ بھی ہے اور پنٹی ریسٹ بھی، لِنکڈاِن بھی ہے تو ٹمبلر بھی، سائنا ویبو بھی ہے تو میٹ آپ بھی، سنیپ چیٹ بھی ہے اور ٹک ٹاک بھی، اسی طرح اور بھی بیسیوں ہیں۔ کرہ ارض پر اب شاید ہی کوئی ذی روح بچا ہو جو اس جدید سماجی مواصلات کے سونامی کی زد میں نا آیا ہو۔ خصوصاً کووڈ۔19 کی وبا کے بعد تو لگتا تھا کہ سب ک±چھ آن لائن ہوگیا ہے ، سوشل میڈیا کی تو جیسے چاندی ہوگئی۔ آج کی اس انسانی مخلوق کے لیے جتنی ضرورت ہوا، پانی، یا روشنی کی ہے اتنی ہی ضرورت سوشل میڈیا کی ہے۔
اڑھائی ہزار سال پہلے عظیم یونانی مفکر ارسطو نے جب انسان کو ایک سماجی جانور کہا تھا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ایک دن آئے گا جب واقعی انسان سماجی مواصلاتی حیوان کا روپ دھار لے گا۔ آج ایک سائنس دان سماجی مواصلات کی ترقی کو اپنے کھاتے میں ڈالتا ہے، تو ایک معیشت دان اسے جدید معیشت کا ایک اہم آلہ قرار دیتا ہے۔ اسی طرح دیگر قدرتی اور سماجی علوم، جدید سماجی مواصلاتی نظام سے بلواسطہ یا بلا واسطہ مستفید یا متاثر ہوئے ہیں۔ شعبہ سیاست بھی اس سے مبرا نہیں، اور خصوصاً انتخابات کا شعبہ براہ راست سوشل میڈیا کے زیر اثر آچکا ہے۔ اب انتخابات ہاتھ کی صفائی سے نکل کر مشینی انداز اختیار کرچکے ہیں۔ انتخابات کے لیے فنڈز جمع کرنے سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک کے سب مراحل مشینوں کی مرہون منت ہیں۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ شاید سوشل میڈیا لوگوں کی کردار کشی اور جھوٹی معلومات رسانی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں، سوشل میڈیا کے اپنے انتظامی اور اخلاقی اصول و ضوابط ہیں جن کی پاسداری استعمال کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ خصوصاً ایسا مواد جو نفرت انگیز ہو یا ایسی اطلاعات رسانی جس کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا ہو کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ ٹوئٹر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاو¿نٹ منجمد کرکے ایک نئی مثال قائم کی۔
پاکستان کی سیاست اور خصوصاً انتخابات میں سوشل میڈیا کا استعمال ابھی نیا ہے۔ اس کا زیادہ کریڈٹ تحریک انصاف کے راہنما عمران خان کو جاتا ہے۔ جنہوں نے ابتدا میں سوشل میڈیا کا استعمال شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈریزنگ سے کیا۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنا شروع کیا۔ عمران خان نے اپنے سیاسی بیانیہ کی تشکیل اور ترویج میں سوشل میڈیا کو ایک نہایت اہم آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کا اثر اتنا شدید ہے کہ باقی تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی اس کا توڑ نہیں کرسکیں۔ اپنی چار سالہ ناقص حکومتی کارکردگی کے باوجود عمران خان سوشل میڈیا کی بدولت اپنے حامیوں میں اس قدر مقبول بنے رہے ہیں کہ عوام میں جانے یعنی نئے الیکشن کے سنگل ایجنڈا کے علاوہ ان کا کوئی مطالبہ نہیں۔ عمران خان کی اسی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر پی۔ڈی۔ایم۔ کی مخلوط حکومت نئے انتخابات سے گھبرا رہی ہے۔ حکومت سے نکالے جانے کے بعد عمران خان نے جس انداز سے اپنے سازشی اور غداری کے سیاسی بیانیہ کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا، اس سے اختلاف کے باوجود انہوں نے دفاعی اداروں کو دفاعی حکمت عملی پر مجبور کردیا۔ تحریک انصاف کے دیگر راہنما بھی سیاسی پیغام رسانی کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال تواتر کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں، گو مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے بلاول زرداری بھٹو بھی سوشل میڈیا پر متحرک دکھائی دیتے ہیں مگر تحریک انصاف سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف بھی کبھی کبھار ٹوئٹر پر پیغامات کے ذریعہ اپنی حاضری لگوالیتے ہیں۔
پاکستان میں اگر کوئی یہ خیال رکھتا ہے کہ آنے والے آئندہ الیکشنز روایتی طور طریقوں اور جوڑ توڑ کی سیاست سے ہی لڑے جائیں گے تو وہ سخت غلطی پر ہے۔ اسے سامنے دیوار پر لکھا ہوا نظر آنا چاہیئے، انٹرنیٹ یعنی اندرونی مواصلاتی جال اتنا پھیل چکا ہے کہ ہر کوئی اس سے متاثر ہواہے ، پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 17 کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ خصوصاً نوجوان طبقہ گھنٹوں گھنٹوں موبائل فون پر وقت گزارتا ہے۔ اور یہ ہی نوجوان طبقہ ماضی کے برعکس سیاسی اور انتخابی حوالہ سے متحرک بھی ہے۔ اب ٹوئٹر سمیت دیگر سوشل نیٹ ورکس نے ایسی سہولتیں متعارف کروادی ہیں جن کے ذریعہ ووٹرز تک رسائی آسان سے آسان تر کردی گئی ہے۔ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں سوشل میڈیا اگر واحد نہیں تو نہایت اہم ترین سیاسی حربہ کے طور پر استعمال ہونا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت یا راہنما اسے پسند کرے نہ کرے، مگر اس کے استعمال سے خود کو باز نہیں رکھ پائے گا۔ وجہ اس کی صرف ایک ہی ہے، کہ اگر اس کا کوئی فائدہ نہ بھی ہو مگر نقصان بالکل بھی نہیں ہے، البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کے استعمال نہ کرنے کا صرف نقصان ہی نقصان ہے، نقصان بھی ایسا کہ جس کی تلافی ممکن نہیں۔ اگر ممکن ہے بھی تو پھر اس کے استعمال میں ہی ہے۔