عمران کے ہاتھوں سی پیک کی تباہی


وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو ہزارہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی نے دوست ممالک سے تعلقات خراب کئے، ان کو ناراض کیا جس کے نتیجہ میں پاکستان آج تباہی کا شکار ہے، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان نے ہر چیز کی تباہی کر دی ہے، چین کے وزیراعظم سے 45 منٹ بات کی، چین پاکستان کا دوست ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاملات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، عمران خان نے سی پیک کا جنازہ نکالا، چینی کمپنیوں پر کرپشن کے بے بنیاد الزامات لگائے، ایک ملک پاکستان میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اس پر الزامات لگائے، عمران نیازی نے اپنے چیلے چانٹوں سے سب کچھ کرایا، چین ناراض ہو گیا، چین نے میرے دورے کے دوران گرمجوشی سے استقبال کیا، یہ چین کی پاکستان کے عوام سے محبت ہے، تمام دوست ممالک سے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چین کے وزیراعظم نے یقین دلایا کہ پاک۔چین دوستی ہمالیہ سے بلند ہے اور پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
عمران حکومت نے جہاں پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کیا، وہاں خارجہ محاذ پر پاکستان کے تمام دوست ممالک کو ناراض کرکے ملک کو عالمی سطح پر یکہ وتنہا کردیا۔ عمران کابینہ میں شامل عبدالرزاق داﺅد صاحب نے منصب سنبھالتے ہی پہلا وار سی پیک پر کیااور یہ بھاشن دیا کہ سی پیک کے تمام معاہدوں کا جائزہ لیا جائے گا اور چین کے ساتھ ان معاہدوں پر بات چیت کرکے ان میں ترامیم کروائی جائیں گی۔ اس بیان پر چین نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس بیان کو ہدف تنقید بنایااور کہا کہ چین کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدے برسوں کے مذاکرات کا نچوڑہیں۔ ان میں ترمیم و اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عوام کا کہنا تھا کہ وزیرموصوف نے یہ بیان سی پیک کو نقصان پہنچانے کیلئے جاری کیا۔عمران حکومت کے پونے چار سالہ دور میں کئی معاملات پر شوروغوغا کیا گیا ، لیکن کبھی بھولے سے بھی سی پیک کا ذکر عمران خان کی زبان پر نہ آیا ۔انہوں نے دکھاوے کیلئے ایک سی پیک اتھارٹی بنائی ،جس کے چیئرمین جنرل عاصم سلیم باجوہ مقرر کئے گئے۔ اس اتھارٹی کا نہ کوئی دفتر تھا، نہ کوئی عملہ۔حتیٰ کہ ملاقاتیوں کو بٹھانے کیلئے ان کے کمرے میں فالتو کرسیاں تک نہ تھیں۔ کسی مہمان کی خاطرتواضع کیلئے چائے پانی کا انتظام بھی نہ کیا گیا۔
 اس زبوں حالی کی حالت میں سی پیک اتھارٹی کیا معرکے انجام دے سکتی تھی۔ کچھ وقت گذرنے کے بعد وزیراعظم نے خاموشی سے جنرل عاصم سلیم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کے منصب سے بھی سبکدوش کردیا اور یوں سی پیک اتھارٹی کا قصہ سرد خانے کی نذر ہوکر رہ گیا۔ 
کون نہیں جانتا کہ سی پیک منصوبے کی اہمیت کیا ہے اور یہ پاکستان کی تقدیر کو کس طرح بدل سکتا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت چین کو شاہراہ ریشم کے ذریعے گوادر کی بندرگاہ تک رسائی دینا مقصود تھا۔ سی پیک کا یہ منصوبہ چین کے اس عظیم الشان تجارتی وژن کا ایک حصہ تھا جس کے ذریعے تین براعظموں کو تجارتی روابط میں استوار کرنے کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ 
چین نے تین براعظموں کو آپس میں تجارتی سطح پر جوڑنے کیلئے کئی شاہراہیں تعمیر کیں۔ جن میں سے ایک برما کی بندرگاہ تک پہنچتی تھی۔ چین کی خواہش تھی کہ وہ ر یلوے لائن کے ذریعے بھی یورپی ممالک تک رسائی حاصل کرے ۔اس سلسلے میں اسے پہلی کامیابی یہ ملی کہ بچوں کے کھلونوں سے بھری ہوئی ایک ٹرین اسپین تک پہنچادی گئی۔ مگر چین کے ان منصوبوں میں سی پیک کو ایک بنیادی اہمیت حاصل تھی۔کیونکہ شاہراہ ریشم تاریخی طور پر ایک تجارتی روٹ کے طور پر استعمال ہوتی چلی آئی ہے ۔ چین نے برس ہا برس کی طویل مشقت کے بعد شاہراہ ریشم کو پختہ کروایا ، تاکہ اس پر سامان سے بھرے کنٹینر رواں دواں رہ سکیں۔ چینی انجینئرز نے اس شاہراہ ریشم کی تعمیر میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ شاہراہ ریشم پر جگہ جگہ ان کی قبروں پر یادگاری تختیاں نصب کی گئی ہیں ۔
 میاں نواز شریف کے حالیہ دور ِ حکومت میں سی پیک کی تکمیل کےلئے چین نے شب و روزتعمیری کاموں کا سلسلہ زوروشور سے جاری رکھا۔ چین کی بھرپوردلی خواہش تھی کہ وہ شاہراہ ریشم کو مشرقی اور مغربی روٹس کے ذریعے گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ سے ملائے ۔ نواز شریف کے دور میں گوادربندرگاہ کی بڑی حد تک تکمیل کردی گئی اور پھر گوادر انٹرنیشنل ائرپورٹ کی تعمیر کا آغازہوا۔ گوادرمیں سیاحوں کی سہولت کیلئے ایک فائیوسٹار ہوٹل بھی تعمیر کرکے چالو کردیا گیا ۔
سی پیک کے اس عظیم منصوبے کے تحت پوری راہداری پر جگہ جگہ صنعتی زونز قائم کئے جانے تھے،جہاں پر چینی اور پاکستانی سرمایہ کار پیسہ لگاتے ، نئی صنعتیں قائم ہوتیں، لاکھوں مقامی اور غیرملکی لوگوں کے لئے مقامی سطح پر روزگار کے نت نئے مواقع ملتے، درآمدات اور برآمدات میں ناقابل ِ یقین حد تک اضافہ ہوتا۔ ایک صورت یہ بھی تھی کہ پاکستان اگر ایک دھیلے کی بھی سرمایہ کاری نہ کرتا تو صرف مال بردار ٹرکوںاور ٹرالرز سے جو ٹول ٹیکس اکٹھاہوتا،وہی پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اہم مرکزی کردار ادا کرسکتا تھا۔ پنجاب میں اس وقت کے وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے چین کے ساتھ گفت و شنید کرکے سی پیک کے کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری کروائی جن کے ذریعے خاص طور پر بجلی کا بحران ختم ہوا۔ کیونکہ چین کے توسط سے درجنوں بجلی پیداکرنے کے کارخانے لگائے گئے جن کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب ٹل گیا۔
 لاہور اور دیگر شہروں میںمیٹروبسوں کے منصوبے چلے، لاہور میں اورنج ٹرین کیلئے بھی چین نے سرمایہ کاری کی ،مگر وائے افسوس کہ میاں نوازشریف کی حکومت ختم کردی گئی ۔ ان کی جگہ عمران خان نے حکومت سنبھالی ، مگر انہوںنے سی پیک کے منصوبوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھا۔ حکومتی غفلت کے باعث کئی ملکی تجارتی وترقیاتی منصوبوں کی مشینری پڑی پڑی زنگ آلود ہوتی چلی گئی اور باقی منصوبوں کیلئے تیل کی فراہمی جاری نہ رکھی جاسکی، جس کی وجہ سے آج پھر پاکستان پر لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے طاری ہو چکے ہیں ۔ بجلی کی کمی کی وجہ سے صنعتیں اور فیکٹریاں بند ہورہی ہیں۔ روزگارکے مواقع سکڑگئے ہیں ۔ 
اب خدا خدا کرکے شہباز شریف کو حکومت ملی ہے تو انہوں نے سی پیک کو زندہ کرنے کیلئے چین سے مذاکرات کا آغاز کیا ہے ۔چینی صدر نے ان سے بجاطورپر گلہ کیا کہ عمران خان کے چار سالوں میں ان کے منصوبوں کو طاقِ نسیاں کی نذرکردیا گیا تھا۔ مگر چین پاکستان کوبے حد اہمیت دیتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر وں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے ۔ اس لئے چین پاکستان کے ساتھ پھر سے کھڑا ہونے کیلئے تیار ہے۔ اور سی پیک کے اس عظیم منصوبے کو بروقت مکمل کرنے کیلئے تمام تر وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ عمران خان سی پیک کو جس قدر بربادی سے دوچار کرسکتے تھے، انہوں نے ایسا کردکھایا ،مگروزیراعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ چند ماہ کے اندراندر اس منصوبے میں چین کے تعاون سے ایک نئی جان ڈال دی۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...