مو¿ثر بہ ماضی اطلاق پر اوگرا کا گیس کے نرخ 74 فیصد بڑھانے کا فیصلہ


آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے یکم جولائی 2022ءسے گیس کے نرخ 74 فیصد تک بڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔ گزشتہ روز اوگرا کے اجلاس میں سوئی ناردرن گیس 74.42 فیصد مہنگی کرنے کی منظوری دی گئی جبکہ سوئی سدرن گیس کے نرخ 67.75 فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اوگرا نے گیس کی قیمت بڑھانے کیلئے سوئی گیس کمپنیوں کی درخواستوں پر فیصلہ جاری کیا۔ اوگرا کے مطابق سوئی ناردرن کیلئے گیس پر 406 روپے 28 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ سوئی سدرن کیلئے 469 روپے 28 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یواضافے کا فیصلہ کیا گیا۔ اوگرا کا کہنا ہے کہ سوئی ناردرن کیلئے گیس کی نئی قیمت 952 روپے 17 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگی جبکہ سوئی سدرن کیلئے گیس کے نرخ 1161 روپے 91 پیسے مقرر کئے گئے ہیں۔ اوگرا کے اس فیصلے پر وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد گزشتہ جولائی سے عملدرآمد شروع ہو جائیگا اور اگر حکومت نے 40 روز کے اندر اندر منظوری نہ دی تو اضافے پر عملدرآمد یکم جولائی 2022ءسے ازخود شروع ہو جائیگا۔ 
سوئی ناردرن اور سوئی سدرن کیلئے گیس کے نرخ بڑھا کر گزشتہ سال جولائی سے اس کا اطلاق کرنے کے فیصلہ سے یہ حقیقت تو روزروشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ ہماری حکومت آئی ایم ایف کے شکنجے میں بری طرح جکڑی جا چکی ہے اس لئے قرض پروگرام کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف کی جانب سے جو شرائط عائد کی جارہی ہیں اور جو بھی احکام صادر کئے جا رہے ہیں حکومت ”مجبورمحض“ کی علامت بن کر ان پر عملدرآمد کئے جا رہی ہے۔ اس حوالے سے موجودہ اتحادی حکومت کی جانب سے غریب عوام کیلئے روزافزوں مہنگائی کا یہ جواز پیش کیا جاتا رہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت جاتے جاتے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عملدرآمد روک کر ہمیں مسائل کے دلدل کی جانب دھکیل گئی ہے اور اس کا بویا اب ہمیں کاٹنا پڑ رہا ہے۔ بے شک اپنی مفاداتی سیاست کے تحت پی ٹی آئی حکومت نے ہی وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ممکنہ کامیابی کو بھانپ کر آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے کیا گیا معاہدہ معطل کرکے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ اگلے تین ماہ تک برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا چنانچہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد اس کا یہی فیصلہ شہباز شریف کی زیرقیادت قائم ہونیوالی نئی حکومت کے گلے پڑا اور آئی ایم ایف نے بدعہدی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کیلئے جاری شدہ قرض پروگرام سرے سے روک دیا۔ اتحادی حکومت نے اسے بحال کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہر ہفتے، پندھرواڑے ریکارڈ اضافہ کرکے عوام کے عملاً زندہ درگور ہونے کی راہ ہموار کردی۔ جب حکومت کے ایسے اقدامات پر عوامی اضطراب کھل کر سامنے آنے لگا تو اتحادی حکمرانوں نے سرجوڑ کر حکومت چھوڑنے اور نئے انتخابات کی جانب جانے پر غوروفکر شروع کر دیا۔ 
یہ امر واقعہ ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس حقیقت کا مکمل ادراک تھا کہ آئی ایم ایف کی تمام ناروا شرائط قبول کرکے پی ٹی آئی حکومت نے مہنگائی کے سونامی اٹھانے کی کھلی اجازت دے دی ہے جس سے عام آدمی کیلئے اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ اس پر ظاہر ہونیوالے عوامی اضطراب کو بھانپ کر ہی پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کو عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کیلئے ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا موقع ملا تھا جبکہ انکی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ وہ اقتصادی ماہرین کی بہترین ٹیم کے ساتھ بہتر مالی اور اقتصادی پالیسیاں وضع کرکے ملک اور عوام کو اقتصادی مسائل کے دلدل سے باہر نکال لیں گے۔ اسی تناظر میں پی ڈی ایم اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اس امر کا بھی ادراک ہو چکا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر عملدرآمد روکے جانے کے ملکی معیشت اور عوام پر کیا برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اسکے باوجود انہوں نے نئے انتخابات کی طرف جانے کے بجائے اقتدار میں آنا قبول کیا تو اب وہ اپنے اقدامات اور پالیسیوں کے نتیجہ میں عوام کے راندہ¿ درگاہ ہونے سے خود کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں جبکہ اس وقت ملک کی معیشت اور عوام کی حالت پی ٹی آئی دور سے بھی زیادہ دگرگوں ہے۔ 
حکمران اتحاد کے بقول اس نے ملکی معیشت کو تباہی اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے اقتدار میں آنے اور اسمبلی کی آئینی میعاد پوری کرنے کا چیلنج قبول کیا ہے مگر اس چیلنج سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے اتحادی حکومت نے جس بے بسی کے ساتھ آئی ایم ایف کی غلامی قبول کی ہے اور قومی خودمختاری اور ملکی مفادات کے برعکس اسکی ہر ناروا شرط پر سرِتسلیم خم کیا ہے‘ جس سے عوام مزید بدحال ہو گئے ہیں۔ اسکے پیش نظر اتحادی حکمران جماعتوں کیلئے آئندہ انتخابات کے میدان میں اترنا اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہوگا اور ممکن ہے کہ اپنے روٹی روزگار کے مسائل سے عاجز آئے اور تنگ آمد بجنگ آمد پر اترے عوام کی سخت مزاحمت کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑے۔ اس وقت اتحادی حکومت کا آئی ایم ایف سے خلاصی پانا بھی ممکن نظر نہیں آرہا جبکہ اسکے قرض پروگرام میں لاگو کی گئی آئی ایم ایف کی ہر شرط پر عملدرآمد بھی حکومت کی مستقل مجبوری بنا رہے گا جس کا عندیہ اوگرا کے حالیہ فیصلے سے بخوبی مل رہا ہے کہ اسکی جانب سے گیس کے نرخ نہ صرف 74 فیصد بڑھائے گئے ہیں بلکہ اس فیصلے کو مو¿ثر بہ ماضی بنایا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمرانوں کے ہاتھوں ”مرے کو مارے شاہ مدار“ عوام کا مزید کیا حشر ہونیوالا ہے۔ 
آئی ایم ایف کے قرض پروگرام پر عملدرآمد کیلئے حکومت پاکستان کو اسکی جانب سے مزید جو ہدایات ملی ہیں‘ انکے مطابق حکومت کو رواں سال 30 جون تک پٹرولیم لیوی کی مد میں 855 ارب روپے جمع کرنے کا پلان دینا ہوگا جس کیلئے اسے فوری طور پر ڈیزل پر لیوی 32 روپے سے بڑھا کر پچاس روپے فی لٹر کرنا ہوگی۔ اسکے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کو تمام سبسڈیز ختم کرنے کا بھی حکمنامہ موصول ہو چکا ہے جبکہ بجلی کے نرخ مزید 35 روپے فی یونٹ بڑھانے کا بھی آئی ایم ایف کی جانب سے تقاضا ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں عوام کا مہنگائی کے ہاتھوں کیا حشر ہونیوالا ہے جن کے پاس قبر میں جانے یا سخت مزاحمت کیلئے میدان میں اترنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
آئی ایم ایف کے اقدامات سے تو یہی عندیہ مل رہا ہے کہ حکومت اسمبلی کی میعاد پوری ہونے تک بھی عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہوگی چنانچہ وہ نئے مینڈیٹ کیلئے فاقہ مست عوام کے پاس جائیگی تو عوام کے ہاتھوں حکمران اتحادی جماعتوں کا انجام نوشتہ¿ دیوار ہے۔ اندریں حالات ”عزتِ سادات“ بچانا ہی حکمران اتحاد کیلئے بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے جس کے تحت اسے بغیر کسی پس و پیش کے نئے انتخابات کی طرف چلے جانا چاہیے۔ اس وقت تو حکمران اتحاد کیلئے ”مجبوری“ والا بیانیہ شاید چل جائے مگر سال چھ ماہ بعد یہ بیانیہ بھی قطعی غیرمو¿ثر ہو جائیگا بلکہ حکمران اتحاد کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...