جمعرات،19 جمادی الثانی 1444ھ، 12 جنوری 2023ئ


گیس سے دم گھٹنے کے واقعات میں اضافہ 
ہر سال سردیوں میں ایسا ہونے کے باوجود حکومت اور عوام اس قدر لاپرواہ ہیں کہ وہ ان حادثات پر کف افسوس ملتے ہیں اور کوئی خاص حفاظتی انتظام نہیں کرتے۔ نہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں نہ کسی کے مشورے پر کان دھرتے ہیں۔ اوپر سے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں استعمال ہونے والے گیس کے آلات اور سامان بھی ناقص ہے۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس پر ہم کہہ سکیں گے یہ اصل ہے نمبر ون ہے۔ ساری مارکیٹیں دو نمبر سامان سے بھری پڑی ہیں۔ جب یہ سامان گھروں میں استعمال ہوتا ہے تو جلد ہی ان میں خرابی کی وجہ سے یہ گیس کے اخراج کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور ناگہانی حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ اس سال بھی سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کے مختلف علاقوں سے گیس لیکج کی وجہ سے متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ موسم چونکہ شدید سرد ہے اس لیے یہ اندہناک ہلاکتیں بڑھ سکتی ہیں۔ جن علاقوں میں سوئی گیس نہیں وہاں لکڑی یا کوئلہ کی انگیٹھی جلا کر گھر والے سو جاتے ہیں وہاں بھی اس وجہ سے آکسیجن ختم ہو جاتی ہے اور دم گھٹنے سے ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو جہاں بھی سوئی گیس، کوئلہ یا لکڑی جلائی جاتی ہے وہاں کمرے کا ایک روشندان ، کھڑکی یا دروازہ تھوڑا بہت ضرور کھلا رکھا جائے۔ اس کے علاوہ سوتے ہوئے بہرصورت آگ بجھا دی جائے۔ اس طرح ان حادثاتی اموات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭
جعلی ڈگریوں پر پی آئی اے کے 117 سفارشی ملازم فارغ 
ایک یا دو آدمی ہوں تو بندہ توجہ نہیں دیتا۔ مگر یہاں تو تعداد ہی اتنی ہے کہ سوچتے ہوئے دماغ سن ہونے لگتا ہے کہ 117 ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی آئی اے میں سابقہ حکومتوں کے ادوار میں کیسی گنگا بہتی رہی اور کس کس نے اس میں اشنان کیا۔ ان بے لگام سفارشی اور رشوت کے عوض ہونے والی بھرتیوں میں نہ کسی کی ڈگری چیک ہوئی نہ قابلیت اور نہ ہی تجربہ۔ کیا معلوم کتنے رکشہ، کار اور ٹرک ڈرائیور اس سفارش اور رشوت کی بدولت بھرتی ہوئے ہوں گے۔ کوئی جہاز اڑا رہا ہو گا کوئی کنٹرول ٹاور آپریٹ کر رہا ہو گا کوئی ہوائی اڈے پر منتظم بنا بیٹھا ہو گا۔ باقی جو شعبے بچے ہیں ان میں بھی یہ مستحق لوگ جا کر چائے پانی پی کر ماہانہ اچھی خاصی تنخواہ بٹورتے رہے ہوں گے۔ جبھی تو پی آئی اے جو کبھی درجہ کمال پہ تھی درجہ زوال پر آ گئی۔ یہ تو ابھی ابتدا ہے۔ آگے آگے جب مزید کارروائی ہو گی تو پتہ چلے گا کون کون سا سفارشی رستم کہاں چھپا بیٹھا ہے۔ ان سب کو فارغ کر کے ان سے جتنی بھی ممکن ہو وصولی بھی کی جائے۔ اس کے ساتھ اگر ان کے سفارشی اور تعیناتی کے ذمہ داران پر بھی آہنی ہاتھ ڈالا جائے تو مزہ آ جائے کیونکہ یہ ہلکے ہاتھ کا کام نہیں ان کو پکڑنے کے لیے لوہے کی زنجیر اور لوہے کا پنجرہ بنانا ہو گا۔ اس طرح اور کچھ نہیں تو کم از کم پی آئی اے کا مرد بیمار ایک مرتبہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے گا اور لوگ اس میں سفر کرتے ہوئے فخر محسوس کریں گے۔ ورنہ فی الحال تو ڈرتے ہیں کہ خدا جانے واش رومز میں پانی بھی ہو گا یا نہیں۔ 
٭٭٭٭٭٭
قومی کرکٹ ٹیم کا باﺅلنگ کوچ بننے کیلئے عمر گل نے آمادگی ظاہر کر دی 
خدا کرے ان کا آنا ہماری کرکٹ ٹیم کے لیے باعث آبادی و شادمانی ہو۔ انہوں نے جس طرح افغان کرکٹ ٹیم کو تیار کیا ہے اس سے ان کی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک کے مہاجر کیمپوں اور شہروں میں پلنے والے یہ افغان کرکٹر آج دنیا میں نام کما رہے ہیں اور ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ان کی اس بھرپور اڑان میں عمر گل کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو ان کے کوچ ہیں۔ اب خبروں کے مطابق انہیں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا باﺅلنگ کوچ مقرر کیا جا رہا ہے اور وہ اس پر تیار بھی ہو گئے ہیں تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ عمر گل کا پہلا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ مل کر کام کریں ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں کو تیار کریں۔ اس وقت ٹیسٹ سیریز کے میدان میں ہماری کرکٹ ٹیم کافی بودی ثابت ہو رہی ہے۔ بڑی مشکل سے دوچار ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے پی سی بی کے نئے عہدیدار پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اس کمزوری کا کوئی شرطیہ علاج ڈھونڈیں ورنہ مزید ٹیسٹ میچوں میں ہارنے کی شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ حیرت کی بات ہے جو ٹیم ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچوں میں عالمی نمبر ون ٹیم کہلاتی ہے اس کے کھلاڑیوں کے ہاتھ پیر ٹیسٹ سیریز میچوں (5 روزہ میچوں) میں کیوں پھول جاتے ہیں۔ انہیں کیا ڈر لگا رہتا ہے۔ اب عمر گل اور دیگر باﺅلنگ و بیٹنگ کوچ ان کے اس ڈر کا علاج دریافت کریں اور انہیں اس خوف سے نجات دلائیں تاکہ ٹیسٹ میچوں میں بھی ہماری ٹیم بہتر کارکردگی دکھا سکے۔ 
٭٭٭٭٭٭
سمندر میں پھینکا گیا بوتل میں بند پیغام 37 سال بعد برآمد 
یہ ایک قدیم سلسلہ ہے۔ لوگ شوقیہ طور پر یا سمندری سفر کے دوران کسی غیر معمولی صورتحال میں اپنا پیغام محفوظ کرکے بوتل میں بند کرکے سمندر میں بہا دیتے تھے جو اکثر کہیں نہ کہیں جلد یا بدیر ساحل تک پہنچ جاتا اور لوگ پڑھ کر جانتے کہ لکھنے والا کون تھا اور کیا تحریر تھی۔ گزشتہ دنوں بھی خبر آئی تھی کہ امریکہ میں چند طلبہ نے اپنا پیغام بوتل میں بند کر کے سمندر برد کیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ کب اور کسے ملتا ہے۔ مگر اس وقت یہ خبر ہے کہ 37 سال بعد ایسا ہی لکھا گیا پیغام ملا ہے وہ اس لیے بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ جنہیں یہ پیغام ملا ہے وہ اب یہ پیغام لکھنے والے کو تلاش کر رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں وہ شخص زندہ بھی ہے یا نہیں۔ اگر زندہ ہے تو اسے خوشی ہو گی کہ اس کا پیغام ساحل تک پہنچا اور لوگوں کو مل گیا۔ یہ بوتل ساحل پر صفائی کے دوران ریت میں دبی ہوئی ملی۔ پیغام رسانی کے اس طریقے کے برعکس ہمارے ہاں سمندر کی بات تو نہیں کر سکتے ہاں البتہ دریاﺅں اور نہروں میں ندی نالوں میں حتیٰ کہ بارش کے بہتے پانی میں بھی کاغذ کی کشتیاں بنا کر بہانے کا کھیل ضرور کھیلا جاتا ہے۔ خاص طور پر بچے پانی میں کاغذ کی کشتی بنا کر ڈالتے ہیں جو کافی دور تک بھی جاتی ہے۔ بدھ اور ہندو تو مخصوص راتوں میں کاغذ کی ناﺅ یا پیپل اور بڑ کے پتوں پر چھوٹے چراغ اور پھول رکھ کر اپنی تمناﺅں کے پورے ہونے کی دعائیں کرتے ہیں اور انہیں دریا میں بہاتے ہیں۔ دریا میں رات کو دور تک یہ ٹمٹماتے ہوئے چراغ نہایت خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...