پاکستان میں سیلاب کو آئے کئی ماہ گزر چکے ہیں مگر سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کے اثرات ابھی تک لاکھوں افراد کو متاثر کر رہے ہیں۔ شدید سردی نے سیلاب متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ سیلاب متاثرین کی امداد اور انفرا سٹرکچر کی بحالی میں موجودہ حکومت شدید ناکامی بلکہ بے حسی کا شکار ہے۔ حکومت معاشی مشکلات کو اس کی وجہ قرار دے رہی ہے مگر تقریباً 80 رکنی وفاقی کابینہ، غیر ترقیاتی اخراجات میں کئی گناہ اضافہ اور حکومتی عیاشیوں میں کوئی کمی دکھائی نہیں دے رہی۔ مہنگائی کی ماری ہوئی عوام کو بچت کا درس دینے والے حکمران اور وزراءاپنی تنخواہوں یا مراعات میں کمی کے لیے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی گزشتہ”نااہلی“ کے عرصے کے تقریباً80 کروڑ روپے وصول کر لیے ہیں۔ جنیوا میں عالمی ڈونر کانفرنس میں ہمارے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی قیادت میںوفد کشکول لے کر گیا جس میں عالمی اداروں نے 10.70 ارب ڈار ڈالنے کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ نے اردو زبان کو عالمی زبانوں میں شامل کر لیا ہے مگر ہمارے حکمران وہاں اپنی قومی زبان اُردو کے بجائے انگریزی میں تقریریں کرکے غیر ملکی آقاﺅں کواپنی وفاداری اور سعادت مندی کا یقین دلاتے رہے۔ حالانکہ وہاں ترجمے کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ہمارے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ”اربوں ڈالر کی امداد غیبی مدد سے کم نہیں“۔ یہ کیسی غیبی امداد تھی کہ دینے والے ہاتھ پوری دنیا دیکھ رہی تھی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جن باتوں پر ہمیں شرم محسوس کرنی چاہیے ان باتوں پر فخر کرتے ہیں۔ ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن عوام کو دو وقت کی روٹی کے لیے آٹا ہی دستیاب نہیں۔ لوگ پیسے لے کر قطاروں میں کھڑے ہو کر دھکے کھاکر بھی آٹے کو ترستے ہیں۔ بقول ساغر صدیقی.... نام ساغر ہے مے کوتر سے ہیں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے”اربوں ڈالر قرض لینے کو ہی آج عوام بھگت رہے ہیں“۔ قرضے حکمران لے کر کھا جاتے ہیں اور بوجھ ملک و قوم پر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ حکومت کے علاوہ پی ٹی آئی نے بھی سیلاب متاثرین کے نام پر جو اربوں روپیہ اکٹھا کیا وہ بھی کہیں خرچ کرتے دکھائی نہیں دی سوائے سیاسی جلسے جلوسوں کے، بدقسمتی سے ہماری سماجی تنظیموں(NGOs) کا جذبہ بھی اس حوالے سے ماند پڑ چکا ہے۔
بات ہو رہی تھی سیلاب متاثرین کی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ اطفال (UNICEF) نے جو رپورٹ حال ہی میں جاری کی ہے وہ انتہائی تشویشناک اور آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں 40 لاکھ بچے اب بھی سیلابی پانی کے قریب زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان بچوں کی بقاءکا بحران بدستور شدید ہے کیونکہ سانس کی بیماریوں اور شدید غذائی کمی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ہنگامی حالت کے اعلان کے چار ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی تقریباً 40 لاکھ بچے اب بھی کھڑے آلودہ سیلابی پانی کے قریب زندگی گزار رہے ہیں جس سے ان کی بقا اور فلاح و بہبود کو خطرات لاحق ہیں۔
سانس کی شدید بیماریوں کی شرح، جو دنیا بھر میں بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں، سیلاب زدہ علاقوں میں آسمان کو چھو رہی ہے۔ اس کے علاوہ، یونیسف کی جانب سے مانیٹر کیے جانے والے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں شدید غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد 2021ءکے مقابلے میں جولائی اور دسمبر کے درمیان تقریبا دوگنی ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 15لاکھ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے فوری طور پر خوارک کی فراہمی کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں یونیسف کے نمائندے عبداللہ فاضل نے کہا کہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے بچے شدید ترین خطرات سے دوچار ہیں۔ بارش بھلے ہی ختم ہو گئی ہو، لیکن بچوں کے لیے بحران ختم نہیں ہوا ہے۔ تقریبا ایک کروڑ لڑکیوں اور لڑکوں کو اب بھی فوری طور پر، زندگی بچانے والی مدد کی ضرورت ہے جو مناسب پناہ گاہوں کے بغیر ایک سخت موسم ِ سرما کا سامنا کررہے ہیں۔شدید غذائی قلت، سانس اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ساتھ ساتھ سردی لاکھوں نوجوانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
ضلع جیکب آباد میں بہت سے خاندانوں کے پاس سیلاب کے پانی کے کنارے قائم اپنی عارضی پناہ گاہوں کو ڈھانپنے کے لیے معمولی کپڑے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جبکہ یہاں رات کے وقت درجہ حرارت 7 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ پہاڑی اور بالائی علاقوں میں ، جو سیلاب سے بھی متاثر ہوئے ہیں ، برف بار ی ہوچکی ہے ، اور درجہ حرارت صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی نیچے گر چکا ہے۔
یونیسف اور اس کے شراکت داروں نے گرم کپڑوں کی کٹس، جیکٹس، کمبل،رضائیاں اور دیگر ضروری اشیاءفراہم کرنا شروع کر دی ہیں جن کا مقصد تقریبا دو لاکھ بچوں، عورتوں اور مردوں تک مدد پہنچانا ہے۔ بچوں کی بقا کے بڑھتے ہوئے بحران کے حل کے لیے 8لاکھ سے زائد بچوں میں غذائی کمی کا پتا لگانے کے لئے اسکریننگ کی گئی ہے۔ 60ہزار بچوں میں شدید ترین غذائی کمی میں مبتلا ہونے کی نشاندہی ہوئی ہے ، جو ایک جان لیوا طبعی حالت ہے جس میں بچے اپنے قد کے تناسب سے بہت کمزور ہوتے ہیں۔ان بچوں کا ریڈی ٹو یوز تھراپیٹک فوڈ (آر یو ٹی ایف) کے ذریعے علاج کیا جارہا ہے۔
اللہ کرے کہ ہمارے حکمران اس رپورٹ کو پڑھ کر ہی ہوش میں آجائیں اور دنیا سے ملنے والی امداد سیلاب متاثرین پر ہی خرچ کریں ورنہ حکمرانوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔
سیلاب کے اثرات اور بچے
Jan 12, 2023