پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے جنیوا میں کانفرنس کے دوران عالمی اداروں وممالک نے مجموعی طورپر 3تا 5 سالوں میں10.57ارب ڈالرامداد کااعلان کیا ہے،وزیراعظم شہباز شریف اوریو این سیکریٹری جنرل نے سیلاب متاثرین کیلیے ملنے والی امداد کا شفاف استعمال اورتھرڈ پارٹی آڈٹ کروانےکی یقینی دھانی کرائی ہے۔پاکستان کا بیشتر علاقہ تاحال سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے،سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور80لاکھ افرادبے گھر ہوئے،متاثرہ علاقوں کی تعمیرنوو ملکی معیشت کی بحالی بڑاچیلنج ہے، جو جی ڈی پی کا 8 %ہے،پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا، جبکہ فوری طورپر 16 بلین ڈالرز سے زائد کی امداد درکار ہے۔ پاکستان موسمیاتی تباہی،ڈیفالٹ کاخطرہ کا شکار ہے، انفرااسٹرکچر کی بحالی وتعمیر نو کیلئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک کیلئے قرضوں سے نجات وخودانحصاری کے مالی ذرائع کیلئے وقتی امداد کی بجائے لچکدار انفراسٹرکچر کی تعمیر اورآئندہ قدرتی آفات سے بچنے کیلیےایک موثرپالیسی فرم ورک پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔پاکستان کی معیشت بلحاظ مساوی قوت خرید دنیا کی26ویں اوربلحاظ خام ملکی پیداوار40ویں بڑی معیشت ہے۔دنیا کی چندایٹمی طاقتوں میں شمار ہونے والاپاکستان کی سرحدیں افغانستان، چین، بھارت اور ایران سے ملتی ہیں اور گوادروسی پیک سمیت اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث وہ بہت منفرد اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان نے گزشتہ 75 برسوں میں کئی شعبوں میں کافی ترقی بھی کی ہے لیکن نصف صدی سے افغانستان جنگ و عدم استحکام کیوجہ ملک پرسماجی، سیاسی اور معاشی اثرات بہت واضح رہے ہیں۔اگرچہ پاکستان نے اپنی زرعی بنیاد بہتر بنانے، صنعتی شعبے کو ترقی دینے اور عوام کو شدید غربت سے نکالنے سمیت کئی شعبوں میں ترقی کی ہے لیکن اب بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں۔قریبا25کروڑآبادی والا ملک آج تک اپنی مجموعی سیاسی واقتصادی صلاحیت استعمال نہیں کرسکا اورعشروں سے درپیش سیاسی ومعاشی عدم استحکام کاشکاررہا ہے۔ پاکستانی معیشت کامجموعی حجم346ارب ڈالر، فی کس آمدن1798 ڈالر، غربت کی شرح 40%اور بےروزگاری 16 % ہے،جبکہ سالانہ برآمدات 26ارب ڈالر اورزرترسیلات سالانہ 30ارب ڈالرز کے ساتھ کل زرمبادلہ کے ذخائر 6ارب ڈالرز ہیں۔پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 127ارب ڈالر ہے جوجی ڈی پی کا 80.2% ہے۔پاکستان اپنے جی ڈی پی کا 1.77%تعلیم پراور1.2%صحت پر خرچ کرتا ہے۔شرح خواندگی 62.3% کے ساتھ27 % آبادی کو بجلی کی سہولت، 50% کو پرائمری ہیلتھ کیئر اور80% آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔فضائی آلودگی کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چوتھا آلودہ ترین ملک ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا پیمانہ اس ملک میں ہونے والی توانائی کی کھپت ہوتا ہے،امریکہ میں توانائی کی کھپت اوسطاً فی کس 12335 کلو واٹ فی گھنٹہ اور پاکستان میں 410 ہے۔
دنیا بھرمیں ابھرتی معیشتیں ترقی یافتہ منڈیوں کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں، جبکہ عالمی نمو کم ہو رہی ہے۔ عالمی ترقی زوال پذیرہے اورعالمی نمو گزشتہ 10 سالوں میں اوسطاً 3.6% سالانہ سے کم ہوکر 3.2% ہو گئی ہے، اندازہ ہے کہ 2024ءاور 2029ءکے درمیان عالمی نمو اوسطاً 2.8% رہے گی جو عالمگیریت کے مستقبل کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ عالمی جی ڈی پی کا وزن اگلے 30 سالوں میں ایشیا کی طرف زیادہ منتقل ہو جائے گا، پائیدار ترقی کو عالمی سطح پر مشترکہ ردعمل کے ذریعے ہی یقینی بنایاجاسکتا ہے۔ آگے بڑھنے کیلیے پاکستان اور اسکے عوام کو اب توجہ انسانی وسائل کی ترقی، سیاسی اداروں کی مضبوطی اور اقتصادی ڈھانچے کی بہتری پر مرکوز کرنا ہوگی۔ اگر موثر پالیسیزاور ادارے قائم ہوں تو 2075 ءتک پاکستان دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہوگی۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو اس میں اتنا تیل ہے کہ وہ50سال تک ملکی ضروریات پوری کر سکتا ہے،قوم قابل،محنتی اور جفاکش ہیں۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، پنجاب کی یہ زمین تقسیم برصغیر سے قبل نہ صرف پورے ہندوستان کو غذائی اجناس فراہم کرتی تھیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی بھیجی جاتی تھیں اور اب بھارت اپنی مشرقی پنجاب کی نسبتاً کم زرخیز زمینوں سے جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے اتنی پیداوار حاصل کر رہا ہے جوہمارے ہاں ہونے والی فی ایکڑ پیداوار سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر ہمارے ہاں انصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں وکاشتکاروں کو سہولتیں دی جائیں اورانہیں کاشتکاری کے جدید سائنسی اصول اپنانے کی ترغیب دی جائے تو وہ چندبرسوں میں ایسا سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔ بیرونی ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30ارب ڈالرز زر ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے 5سالوں میں بہتر رجحانات ومارکیٹینگ کے زریعے 50 ارب ڈالرزاور برآمدات کو40 ارب ڈالرزتک بڑھایاجاسکتاہے۔ بلاشبہ پاکستان1947ءکی بہ نسبت آگے اور ایک مظبوط ایٹمی ملک ہے۔اگرسیاسی قیادت اپنے اقتدار پر ملک کو ترجیح دے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو تو وسائل ومحنت کو بروئے کار لا کرترقیاتی اہداف پورے کئے جا سکتے ہیں۔غیرملکی امدادوں کی یہ بیساکھیاں معیشت بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی، اسلئے کیوں نہ حتمی طور پر طے کر لیا جائے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے اور اپنے وسائل کوبہترین انداز میں استعمال کر کے عالمی برادری کے شانہ بشانہ چلیں گے جو ممکن عمل ہے، یہ فیصلہ جوہمیں کل کرنا ہے تو آج ہی کیوں نہ کرلیا جائے۔