سیاسی جماعتوں کے ”خوش نما انتخابی منشور“

Jan 12, 2024

امتیازاقدس گورایا


بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

2024ئ کا سب سے بڑا معرکہ ” 12 ویں عام انتخابات“ ہونے جارہا ہے۔8 فروری کو ہونے والے انتخابات کا اہم ترین مرحلہ ٹکٹوں کی تقسیم تقریباً پورا ہونے کو ہے۔ رابطہ مہم ‘ وعدے وعید ، نعرے اور دعووں کا چراغ پوری طرح روشن ہے۔ امیدواروں اور چیف سپورٹرز کے دروازے اور ٹیلی فون سب کے سب آن ہیں۔ محبتوں کی تقسیم اور عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنے اور کرانے کے مناظر سب دیکھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماءاسلام‘ ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن ‘ اور تحریک انصاف سمیت سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور ان کے امیدوار انتخابی میدان میں اپنی موجودگی کا بار بار احساس دلارہے ہیں۔آج بھی امیدوار آپ کو ختم نبوت کے مجاہد‘ ترجمان تحفظ ناموس رسالت‘ نظام مصطفی کے سپاہی‘ روٹی کپڑا اور مکان جیسے دلکش نعرے پڑھنے اور سننے کو مل رے ہیں۔وطن عزیز کی سبھی بڑی پارٹوں کے انتخابی منشور قریباً قریباً ووٹرز تک پہنچ چکے ہیں۔آپ کسی بھی جماعت کا انتخابی منشور دیکھ لیں، پڑھ لیں وہ جماعت آپ کو پاکستان اور پاکستانی قوم کی مربی اور ہمدردنظر آئے گی۔ غربت کا خاتمہ‘ بے روزگاری میں کمی‘ مہنگائی پر کنٹرول‘ تعلیمی ترقی‘ ایجوکیشن اور صحت کے بجٹ میں غیر معمولی اضافہ اور شرح خواندگی کو اقوام عالم کے برابر لانے کے عہد زریں سے مزین قومی انتخابی منشور کا حصہ دکھائی دے گا۔سب جماعتیں دعویدار ہیں کہ وہ اپنے انتخابی منشور سے ملک وقوم کی تقدیر میں انقلاب آفریں تبدیلی کا باعث بنیں گی۔مسلم لیگ ن کے سینٹر عرفان صدیقی کی قیادت میں 32 رکنی منشور کیمٹی نے پی ایم ایل این کا الیکشن مینیسفسٹو تیار کیا بقول عرفان صدیقی یہ انتخابی منشور نہیںبلکہ عہد نامہ ہے۔ قوم بصداحترام محترم سنیٹر صاحب سے پوچھنا چاہتی ہے کہ اس سے قبل بھی مسلم لیگ تین مرتبہ ایوان اقتدار میں داخل ہوئی تھی۔ کیا کسی ایک مرتبہ بھی مسلم لیگ نے اپنے انتخابی منشور پر عمل کیا؟
قیام پاکستان کو معرض وجود آئے 77برس ہوگئے لیکن آج بھی قوم میں قومی یکجہتی کا فقدان اس کا مقدر ٹھہرا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا المیہ یہ ہے کہ ابتداءمیں آئین کا نہ بننا دستور ساز اسمبلی کا ختم ہو جانا اور اداروں کے درمیان اقتدار کی کھینچا تانی کے باعث اداروں کا کمزور ہو جانے سے قومی یکجہتی کی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی پاکستان کے قیام سے اب تک کا سفر طرح طرح کے مسائل و مصائب سے دو چار دکھائی دیتا ہے صد افسوس ہم نے ابتدائی 11سال میں اس کو سیاسی نظام نہیں دیا اور ملک کو مارشل لا کی بھینٹ چڑھایا جس سے جمہوری عمل آمریت کے سائے میں رہا اور جمہوریت فروغ نہ پا سکی حالانکہ مستحکم سیاسی نظام اداروں کا استحکام قومی مفاد اور سیاسی اداروں کی خود مختیاری ایسے محرکات ہیں جو عوام میں سیاسی شعور کو بیدار کرتے ہیں لیکن ہم عوام کو سیاسی شعور دینے میں ناکام رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت جس کے ہاتھ لگی اس نے اپنی مرضی سے آئین اپنے تابع کر لیا اور عوام سیاسی نظام میں یکجہتی پیدا نہ کر پائی میرے وطن کو آج جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ ازل سے اس کے موسوم میں دکھائی دیتے ہیں اور قومی یکجہتی کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں جن میں علاقوں میں غیر مساوی ترقی ،تہذیبی و ثقافتی اختلافات ،لسانی و نسلی اختلافات ،مخصوص طبقے کی سیاسی اجارہ داری ،سیاسی وانتظامی اداروں میں انحطاظ، مطلق العنان حکومتیں شامل ہیں جب تک ان مسائل کو حل نہیں کیا جاتا قومی یکجہتی پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی پاکستان بحرانی حالات سے نکل سکتا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ شرح خواندگی کو بڑھانے کے لئے مزید اقدامات کرے اور تمام صوبوں میں ترقی و خوشحالی کا یکساں سفر شروع کیا جائے جمہوریت کا قیام ہی مسائل کے حل میں ممدومعاون ثابت ہو گا اور جاگیر دار ،سرمایہ دار اور حکومتی اختیارات کے حامل لوگوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ضروری ہے قومی بقا اور سلامتی کا تقاضا ہے کہ مخصوص طبقے کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے اور قومی اداروں کو مستحکم بنایا جائے اور قومی یکجہتی کے لئے ضروری ہے کہ ریاست کے اداروں میں استحکام پیدا کیا جائے ادارے جتنے مستحکم ہو گے ملک اتنا ہی مضبوط ہو گا ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لئے معاشی آسودگی کے اقدام کرنے ہو گے قائد اعظم محمد علی جناح کے اس فرمان پر عمل کرنا ہو گا ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ چاہتے ہیں جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں اب اسلامی تعلیمات اور اقدار کا قیام ہی پاکستان کو متحد رکھ سکتا ہے ۔
 یہ ہماری اور ہمارے جمہوری نظام کی بدقسمتی کہہ لیںیہاں حکمران جماعتیں عوامی مفاد اور انتخابی منشور دونوں کو دانستہ اور غیر دانستہ فراموش کرنے کی روایت پر قائم رہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری مسلسل بڑھتی رہیں مگر عوام کے ہمدرد اس کا نوٹس لینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔گزشتہ برس کے آخری تین ماہ میں بجلی‘ گیس ‘ پٹرول‘ آٹا‘ انڈے ‘ سبزیاں اور پھلوں کے نرخ میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوا۔مہنگائی اور افراط زر نے بلند ترین شرح کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے مگر کسی کے دل میں ہمدردی کا چراغ روشن نہ ہوا۔ معلوم نہیں عوامی عدالت میں وعدے کرنے والے اقتدار میں آکر اپنے ہی وعدوں کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہیں؟ وہ کسی بڑی عدالت میں جواب دہی کے خوف سے کیوں مبرا ہو جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں ووٹ کی امانت کو اس کے اصل حقدار تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے وہاں اس بات کو نمایاں کیا گیا ہے کہ ”آخر تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے“
قوم کو انتخابی منشور اور ان میں درج الفاظ کے گورکھ دھندوں سے غرض نہیں 25 کروڑ لوگ سیدھے سادھے سوالات کے جواب مانگ رہے ہیں کیا دنیا میں کہیں سردیوں میں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے؟ کیا کسی ملک میں بےروزگاروں کی تعداد میںمسلسل اضافہ ہوتا ہے اور کون سی ایسی ریاست ہے جہاں ایجوکیشن اور صحت کے بجٹ کو پچاس سال سے منجمند رکھا گیا ”ہم نیک وبدحضور کوسمجھائے دیتے ہیں“

مزیدخبریں