اقبال اورعاکف:عالم اسلام کے دوشاعر

علامہ محمداقبال برصغیرکے مسلمانوں کے دلوں کی آواز ہیں۔انھیں پاکستان کے قومی شاعرکی حیثیت حاصل ہے،اسی طرح محمدعاکف ارصوئے ترکیہ کے قومی شاعر ہیں،عاکف کا زمانہ بھی کم وبیش وہی ہے جو ہمارے شاعر کاہے،حیرت اس بات کی ہے کہ ترکیہ میں تواقبال کے ذکر اورفکرکے حوالے مختلف سرگرمیاں کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتی ہیں۔ اسکے برعکس برصغیرپاک وہند کے عوام محمد عاکف سے زیادہ شناسائی نہیں رکھتے۔ہمارے ’’ترکِ غمزہ زن‘‘ اور پاکستان میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خلیل طوقار نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات کے زیراہتمام ہونے والی دوروزہ بین الاقوامی علمی وادبی کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں ہماری علمی اشرافیہ سے جب یہ محبت بھرا شکوہ کیا توسب لاجواب ہوگئے۔ محمدعاکف ارصوئے کو ترکیہ کے قومی ترانے کاخالق ہونے کاشرف حاصل ہے۔ایک اوراعزاز بھی ان کے نام ہے۔جن دنوں حضرت علامہ کا شعری مجموعہ ’’پیام مشرق‘‘شائع ہوا تو اس کا ایک نسخہ کسی نہ کسی طرح محمدعاکف تک پہنچا۔وہ اقبا ل کی فکر اورفلسفے کے مطالعے کے بعداس نتیجے پرپہنچے کہ انھیں اسی کی تلاش تھی۔انھوں ’’پیام مشرق ‘‘کا نہ صرف ترکی زبان میں ترجمہ کیا بلکہ اپنے وطن میں فکر اقبال کی ترویج کے سلسلے میں باقاعدہ تحریک پیداکی۔یہ وہ زمانہ تھا جب عالم اسلام مغربی استعمار کے زیراثرسسک رہاتھا۔دونوں شاعر اپنی قوم کو یورپی نوآبادیات کے اثرات سے نکال کر خود متکفیت کی طرف لے جانا چاہتے تھے اس لیے ان کے شعری پیغام میں بھی بہت سے اشتراکات دکھائی دیتے ہیں۔ برصغیرکے مسلمانوں نے شعر اقبال کے روشن چراغ سے اپنے لیے زاد راہ لے کرآزادی حاصل کی جبکہ ترکیہ کے عوام نے محمدعاکف کی فکر کی مدد سے اپنی قوم میں حریت فکر پیدا کی اوراس کے بعد عالمی سطح پر خود کو ایک مضبوط قوم کی حیثیت متعارف کروایا۔دونوں نے قرآن وسنت سے اپنے شعری ابعاد کو مزید روشن کیا۔مجھے اپنے شعبے کے رفیق کار ڈاکٹر ندیم عباس اشرف کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کیلئے مدعو کیاگیا تھا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میری مادرعلمی ہے۔یہ جامعہ میرے لیے کسی انا مست درویش کی خانقاہ سے کم نہیں۔اس خانقاہ کے شیخ عالی مرتبت استاذ گرامی پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحرہیں، ان دنوں وہ جامعہ کی لسانیات اورمعاشرتی علوم کی فیکلٹی کے ڈین ہیں۔ وہیں سے مجھے ڈاکٹر عطش درانی ،ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹرظفرحسین ظفراوربہت سے دوسرے باکمال اساتذہ میسر آئے۔ڈاکٹررفیق الاسلام ، ڈاکٹر قاسم یعقوب اور ڈاکٹر صفدررشید جیسے احباب کی رفاقت کاشرف حاصل ہوا۔کانفرنس کا آغاز پروقار انداز میںہوا۔اس حصے کی نقابت کے فرائض ڈاکٹر ارشد محمودناشاد نے بڑے نپے تلے انداز میں ادا کیے۔شعبہ اقبالیات کے انچارج ڈاکٹر سید شیراز زیدی نے مختصراورجامع انداز میں کانفرنس کے اغراض ومقاصدپیش کیے۔رئیس الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کے استقبالیہ کلمات کے بعدڈاکٹرخلیل طوقار نے اپنے خیالات کااظہارکیا۔جمہوریہ ترکیہ کے سفیر پروفیسر ڈاکٹر میہمت پاچا جی نے بڑے احسن طریقے سے پاکستان اورترکیہ کے صدیوں پرانے ثقافتی تعلقات کی تاریخ پیش کی۔اعلیٰ قومیں دوست ممالک میں سفارت کیلئے دانشور وں کا انتخاب کرتی ہیں(کیا کریں اب توہرموقع پرخود سے تقابل کرنے کی عادت پڑ گئی ہے)۔کانفرنس میںترکیہ کے سفیر کی گفتگو اس امرکی غمازتھی۔نگران وفاقی وزیرتعلیم سیدمدد علی سندھی نے بے ساختہ انداز میں دل کی باتیں کیں۔ پروفیسر ڈاکٹرعبدالعزیز ساحرکی گفتگو کو بڑی دلچسپی سے سنا گیا۔ اردو کے ساتھ ترکی اورفارسی زبانوں کی آمیزش نے ان کے خطاب کو ایک نیارنگ بخشا،افتتاحی اجلاس کا پہلا کلیدی خطبہ معروف شاعرہ،سابق ڈائریکٹر جنرل انجمن ترقی اردو پاکستان ڈاکٹرفاطمہ حسن نے پیش کیا۔انھوں نے اکیسویں صدی میں علامہ اقبال کی فکر کی ترویج کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے، نہایت مدلل انداز میں اپنے نکات حاضرین تک پہنچائے۔ انھوں نے موجودہ تہذیبی صورت حال کے تناظر میںکلام اقبال کی معنویت کو اجاگر کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اصل معنوں میں اقبال کی علمی سفیر ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی انتظامی خوبیوں کے جوہر بھی ہم ان کے اقبال اکیڈمی لاہور کی صدرنشینی کے دنوں میں دیکھ چکے ہیں۔انھوں نے بڑے عالمانہ انداز میں علامہ اقبال کی شاعری کے فنی محاسن کو موضوع بنا یا۔ انھوں نے کہاکہ اقبال کی شاعری کسی مرحلے پربھی پیغام آفرینی کے جوش میں نعرہ نہیں بنی اورنہ ہی یہ بیان کی جادوگری تک محدودہے۔
علامہ اقبال اور محمدعاکف دونوں عالم اسلام کے دو عظیم شعرا ہیں،انکے افکارکی گردش اور اسکے عالم گیراثرات ہرسطح پرمحسوس ہوتے ہیں۔دنیابھرکی یونیورسٹیوں میں انکی ستائش کا سلسلہ جاری ہے۔ اقبال کی نسبت سے میزبان جامعہ کے علاوہ اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی اقبالیات کا شعبہ قائم ہوچکا ہے،جس نے مختصرسے عرصے میں اپنا خدمات کا اعتراف کروایا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی اس کانفرنس میں علامہ اقبال اوراکیسویں صدی کے چیلنجز کے عنوان سے بھی مقالات سننے کا موقع ملا۔اس میں شک نہیں کہ اکیسویں صدی کی ابتدائی ربع صدی گزرنے کے باوجود انسان کو امن اور سکون نصیب نہیں ہوسکا،لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس کا پیغام عام کرنے کا سلسلی ہی موقوف کردیا جائے۔اس کی ضرورت ہر دورمیں محسوس ہوتی ہے۔اس کانفرنس نے اس حوالے سے ایک عمدہ مثال قائم کی۔متوازی سیشنوں میں سکالرز نے اپنے تنقیدی وتحقیقی مقالات پیش کیے۔جامعہ کے طلبہ وطالبات کے علاوہ مختلف شہروں سے آئے ہوئے مندوبین نے بھی اپنے مضامین پڑھے۔
ان سیشنوں کی صدارتی پینل میںڈاکٹر فاطمہ حسن ،ڈاکٹرنجیب جمال ،ڈاکٹر یوسف خشک ،ڈاکٹر تنظیم الفردوس،ڈاکٹرسلیم مظہر،ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ڈاکٹررفاقت علی شاہد،ڈاکٹرعلی کمیل قزلباش، ڈاکٹر راشدحمید،ڈاکٹر ضیاالحسن اور راقم الحروف شامل تھے۔ مقالہ نگاروں میںایرین میاس اوغلو (ترکیہ) میہمت طوئے ران (ترکیہ) ڈاکٹر محمد کیومرثی (ایران) ڈاکٹر علی بیات (ایران)ڈاکٹر لال پاچا ازمون (افغانستان) ڈاکٹرسبینہ اویس، ڈاکٹر ندیم عباس اشرف، ڈاکٹر عبدالستار ملک،ڈاکٹر قاسم یعقوب، ڈاکٹر یاسمین کوثر، ڈاکٹر شگفتہ فردوس اور بہت سے دوسرے لوگ شامل تھے۔اس دوروزہ عالمی کانفرنس کا اہم مقصد وطن عزیز کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے سکالرز کا ربط وضبط تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ علمی وادبی کانفرسوںمیں محدود لوگ شامل ہوتے ہیں لیکن بلاشبہ ان کے دوررس نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن