ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ بچہ اپنے ماحول کا اثر بہت جلدی قبول کر لیتا ہے اور حقیقت بھی ہے، اپنے ارد گرد جو وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اسے اپنا لیتا ہے، بچہ عمر کے اس دور میں صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں کر پاتا، کیونکہ وہ تو سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے، جو دیکھتا ہے ،سنتا ہے، اسی کے تناسب سے بچے کے ذہن میں خاکہ تیار ہوتا ہے جو اس کے ذہن میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔ ماہرین نفسیات یہ مانتے ہیں کہ بچے کا دماغ کورا کاغذ اور خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے توابتدائی عمر سے لے کر اسے شعورآ جانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کیسا ماحول فراہم کر رہے ہیں کیونکہ وہ جس ماحول میں جیسے لوگوں کے درمیان رہے گا جو انہیں کرتا دیکھے گا وہی اس کورے کاغذ یا سلیٹ پر تحریر ہو جائے گا۔ اب جو نقش ہوگا وہ تاعمر محفوظ رہے گا، بچہ جس ماحول میں رہے گا جن کے ساتھ نشست پر برخاست میں رہے گا انہیں کے اطوار و آداب وہ از خود سیکھتا جائے گا۔ بتدریج یہ ذمہ داری اساتذہ کے کندھوں پر آ جاتی ہے۔ معاشرے کے دو اہم ترین عناصر والدین اور اساتذہ ہیں کہ دونوں پر ہی بچے کی تعلیم و تربیت کے انحصار ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اور تعلیم اساتذہ کی جبکہ عملی طور پر ایسا نہیں ہے استاد پر اگرچہ تعلیم کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن وہ تربیت کے فرض سے مبرا نہیں، اسی طرح والدین پر تربیت کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن وہ بچے کی تعلیم سے خودکو الگ نہیں کر سکتے، دنیا کے ٹاپ فیشن ہاؤسز کی بنیاد رکھنے والے مشہور فرینچ ڈیزائنر کرسچن بھی نے کہا تھا حقیقی شائستگی کا راز عمدہ تربیت ہے، پیش قیمت ملبوسات حیران کن زیبائش اشیاء اور خیرہ کن حسن کی تربیت عمدہ تربیت کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ بچوں کی تربیت میں والدین کے ساتھ اساتذہ کا بھی بے حد اہم کردار ہے۔ اسلام میں استاد کو روحانی ماں باپ کا درجہ اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ اگر والدین بچے کی ظاہری شخصیت کو سنوارتے ہیں تو استاد ان کے لیے باطل کو نکھارتے ہیں، کیا آج کے اساتذہ تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت ان خطوط پر کر رہے ہیں جو بحیثیت اساتذہ ان کی ذمہ داری ہے۔ ایک استاد اپنے طلبہ کے لیے رول ماڈل ہوتا ہے، طلبہ استاد کے لیکچر سے زیادہ اس کے عمل کا اثرقبول کرتے ہیں۔ایک بہترین استاد وہی ہے جو اپنے طلبہ میں جن اوصاف کو دیکھنا چاہتاہے انہیں اپنی ذات کا حصہ بنا لے، اپنے طلبہ کو جن عادات و خصوصیات سے مزین دیکھنا چاہتا ہے انہی کا آئینہ بن جائے۔ اپنے طلبہ کو جن عادات و خصوصیات کا آئینہ دار بنانا چاہتا ہے انہیں خود پر لازم ملزوم کر لے۔ اگر اساتذہ خوش اخلاقی، صلہ رحمی ،صبر و تحمل کا پیکر ہوں تو ان کے تلامذہ میں بالخصوص یہ عادات پائی جائیں گی اور یہی تربیت کے عمدہ مثال ہے، دنیا بھر میں یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے اور قوم تعلیم و تربیت کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے اس لیے تو یہ کہا گیا ہے ، بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی آغوش ہوتی ہے پھر یہ بھی کہا گیا کہ ایک ماں اچھی تعلیم و تربیت سے ایک اچھی نسل تیار کرتی ہے، بچے کی تعلیم و تربیت گھریلو سطح پر فقط ماں پر ہی نہیں بلکہ ماں باپ دونوں کی ذمہ داری ہے اور بچے کے لیے تو پہلا رول ماڈل ماں باپ ہی ہوتے ہیں، ہمارے ہاں مائیں بیٹیوں کو زندگی کے مختلف مراحل پر اچھی طرح بیوی، بیٹی، بہن بننے کے فارمولے سے تو آگاہ کرتی رہتی ہے لیکن ایسا شاذ و نادر ہے کہ لڑکیوں کو شادی سے پہلے اچھی ماں بننے کے بارے میں اس کے فرائض اور خصائل سے اگاہ کیا جائے، چاہیے تو یہ اس کام میں ماں اور باپ دونوں شرکت کریں لیکن جانے کیوں معاشرتی بندش از خود لگا لی گئی کہ بیٹی کی تمام معاملات کی ذمہ داری فقط ماں پر ڈال دی گئی، باپ کو بری الذمہ کردیاگیا، دوسری طرف ایسے ہی صورتحال بیٹوں کی پرورش کے معاملے میں بھی ہوتی ہے میری سمجھ کے مطابق یہ وہ کلیدی عنصر ہے جس نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں گھریلو سطح پر ماں اور باپ کو یکجا ہونے کی بجائے الگ الگ کر دیا ہے اس سے بھی اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ہم میں سے وہ لوگ جو تعلیمی ذمہ داری استاد اور تعلیمی ادارے پر ڈالتے ہیں وہ یہ کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ بچہ ایک مخصوص عمر میں سکول جانا شروع کرتا ہے اور اس سے پہلے بچے کی آدھی تعلیم اور تربیت گھر پر ہو رہی ہوتی ہے اور اسی گھر سے حاصل کردہ تعلیم و تربیت لے کر بچہ سکول جاتا ہے جہاں پر اساتذہ بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ قابل غور یہ بھی اساتذہ والدین کوئی الگ الگ شعبہ نہیں، حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے کام کو آگے بڑھاتے ہیں بالکل اسی طرح ایک استاد بھی اپنے ہر طالب علم کی نفسیات سے واقفیت ہونی چاہیے استاد اس باغبان کی طرح ہوتا ہے جو اپنے باغ کے ہر پھول اور ہر پودے کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے اورپودے کی نگہداشت اس کی نفسیات کے مطابق کرتا ہے الغرض بچے کی تعلیم و تربیت والدین کی باہمی ذمہ داری ہے اساتذہ ہی اپنی شفقت اور محنت سے طلبہ کو کندن بناتے ہیں چونکہ بچہ جس ماحول میں پرورش پا رہا ہوتا ہے وہاں پانچ سال کی عمر کے بعد وہ کسی ایک شخصیت کو اپنا رول ماڈل بنا لیتا ہے اور اس کے ذہن میں سوچ پنپنے لگتی ہے کہ اس سے بڑاہوکرکیابننا ہے اگر وہ استاد سے متاثر ہے تو معلم بننا چاہے گا اور اگر وہ والد کی وردی سے متاثر ہے تو وہ ایک فوجی بننا چاہے گا اگر اس کا بڑا بھائی ایئرپورٹ پہ ہے تو ہو سکتا ہے اس کا لگاؤ جہازوں سے ہو جائے یا گھر میں کوئی ڈاکٹر موجودہو تو ہو سکتا ہے بچہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بننے کی خواہش کرے، اب اس کے بعد ایک اہم مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ بچے کی خواہش کے مطابق ماں باپ اور اس کے اساتذہ اس کی تربیت کرنا شروع کر دیں تاکہ وہ اپنے اس خواب کو تعبیر کر سکے ،بچے کی ذہنی طور پر صحت مند رکھنے کے لیے جذباتی کشمکش سے لطیف انداز سے نکالنے کے لیے ماں باپ کا کردار اور گھر میں موجود بزرگوں کی نگاہ بہت اہمیت رکھتی ہے اگر ہم بچے کو نہ دے سکیں تو بچے کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔