جب سے پاکستان بنا ہے داخلی انتشار ختم نہیں ہو پایا۔ جس کی سادہ ترین وجہ تو یہی نظر آتی ہے کہ انگریز جاتے جاتے کوئی ایسا میکنزم بنا گئے کہ ہم کبھی سکھ کا سانس لے ہی نہیں پائے۔ اور بحران پیدا کرنے میں اسٹیبلشمینٹ ، سیاستدان ، بیوروکریسی ، عدلیہ ، صحافت ہر شعبہ شامل رہا ہے۔ یعنی جنہیں ریاست کا ستون ہونا چاہیے تھا اکھاڑ پچھاڑ انہی کے ہاتھوں سے ہوتی آئی ہے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا کہ پہلے سے موجود انفلوئنسر کام خراب کرجاتا ہے اور اسکے بعد آنے والے کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بعد میں آنے والا ملک کو سنبھالنے میں لگا رہتا ہے اور جب حالات کچھ سنبھلتے ہیں تو پھر کوئی پہلے سے موجود یہی واردات ڈال کر چلتا بنتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی کسی نینہ تو اس بحرانی تسلسل پر غور و خوص کر نے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کبھی اس حوالے سے مل بیٹھ کے کوئی حل نکالنے کا سوچا گیا ہے۔ جمہوری حکومتوں کا مدت پوری نہ کر پانے کا ایک خاص ٹرینڈ ہونا پھر مارشل لاء کے دس دس سال تک نافذ رہنے کے دوران مخصوص سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا وقوع پذیر ہونا۔ یعنی ضیاء الحق کے دور میں دوپٹوں کا اوڑھا جانا اور پرویز مشرف کے دور میں لبرل ازم کا تاثر پھیلایا جانا بنیادی طور پر ایک جیسے ہی عوامل ہیں جو کہ سوائے سماجی نفسیات کے بگاڑ میں اضافہ کرنے کے کچھ نہ کر سکے۔ پھر جو کچھ فرقہ واریت اور دہشت گردی کے ذریعے کروایا گیا وہ ایک الگ داستان ہے۔ مجھے تو یہ بھی بہت عجیب لگتا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ، نصاب یا طرز تدریس تک کہیں اور سے ڈیزائن ہو کے آتا ہے اور ہم اسے بلا چون و چرا قبول کرلیتے ہیں۔ اس تمام تر فرسودگی کے باوجود بھی جو لوگ اپنی قابلیت کو مرنے نہیں دیتے انہیں بیرونی وظائف کے ذریعے شکار کرلیا جاتا ہے۔ پھر ہمارے مقتدر طبقے کے افراد کے دلوں میں سرگرم بیرون ملک رہائش ، دوروں اور کورسز کی خواہش نے رہی سہی امید توڑ کے رکھ دی ہوئی ہے۔ یعنی ایک طرف سیاسی حالات کو کبھی بھی ہموار نہیں رہنے دیا گیا تو دوسری طرف سماجی بالیدگی کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ دوسالوں میں پیدا کیا گیا بحران تو اتنا کثیرالجہتی ہے کہ اس طرح کے کسی خلفشار کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاسی ، معاشی ، آئینی ، عدالتی ، جغرافیائی کونسا طوفان ہے جو برپا نہیں کیا گیا۔ ایک طرف عدالت الیکشن کا حکم دیتی ہے دوسری طرف دس بارہ سینیٹر اٹھ کے قرار داد پاس کرتے ہیں کہ ملک میں سردی بہت ہے اس لیے الیکشن نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ آج کل جون جولائی نہیں ہے ورنہ انہوں نے یہی کہنا تھا کہ اتنی گرمی میں الیکشن نہیں کرائے جا سکتے۔ میرے ذاتی تجزیے کے مطابق پاکستان کے الیکشن بھارت اور امریکہ کے الیکشنز سے کہیں نہ کہیں ضرور جڑے ہوئے ہو سکتے ہیں جس کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ امریکی پاکستانی ووٹرز کی اکثریت ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کی دعائیں مانگ رہی ہے اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے چانسز صاف نظر بھی آ رہے ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایک دفعہ پھر طاقتور ممالک کے درمیان اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ امریکہ اور چین اپنی اپنی جگہ پاکستان کو دبائو میں نہ رکھیں۔ اگر پچھلے چھہتر سالوں میں پاکستان میں کسی نہ کسی وجہ سے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا رہا ہے تو اب کیسے ممکن ہے کہ الیکشن اور الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو نظر انداز کردیا جائے۔ پاکستان میں لیاقت علی خان سے ایوب خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، ضیاء الحق ، بینظیر بھٹو ، جنرل مشرف اور عمران خان تک جس نے بھی آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کا سوچا ہے اس کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ’’ محبت کری گئی ہے‘‘۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہوگا کیا؟ میرے ذاتی تجزیے کے مطابق کچھ بھی نہیں ہوگا۔ پاکستان میں چاہے کوئی محب وطن ہے یا غیر مخلص شہری ہو وہ اپنے اپنے دائرے کے اندر رہ کر ہی کھیل سکتا ہے۔ جن طاقتوں نے پاکستان میں آج تک کسی بھی حکومت کو جمہوری مدت پوری نہیں کرنے دی اب بھی انہی کی مرضی چلے گی۔ یہاں جج ہمیشہ نظریہ ضرورت کا تحفظ کرتے رہیں گے اور کہتے رہیں گے کہ ہم نے اگر ضیاء الحق کے مارشل لاء کو تسلیم نہ کیا ہوتا تو سپریم کورٹ پر ٹینک چڑھا دیے جاتے۔ یہاں ڈکٹیٹر ہمیشہ یہی کہتا رہے گا کہ اگر اس نے مارشل لاء نہ لگایا ہوتا تو سیاستدانوں نے ملک فارغ کردینا تھا۔ یہاں سیاستدان ملک کی بقاء اور سالمیت کے نام پر ہی ہر طرح کی گنجائشیں نکالتے رہیں گے جبکہ بیوروکریٹ اپنی قابلیت کی بنیاد پر ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے حکمرانوں سے وفاداری کی بنیاد پر اہم سیٹوں پر تقرریاں حاصل کرتے رہیں گے۔
لندن میں مقیم معروف پاکستانی سماجی شخصیت سلطان حیات بضد تھے کہ ملک میں جس طرح کے حالات ہیں ایسی صورتحال میں الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ فنانشل ایمرجنسی لگانی پڑ جائے جبکہ پیپلز پارٹی گلف کے صدر میاں منیرہانس کا کہنا تھا کہ آٹھ فروری کو ہر صورت الیکشن ہونگے کیونکہ انتخاب ہی واحد حل ہے۔ میاں منیر ہنس صاحب نے بتایا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واضح کردیا ہے کہ الیکشن کا التواء کی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان موجودہ سیاسی و معاشی دبائو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ ن لیگ کے ایک دوست نے کہا کہ الیکشن ہوں یا نگران سیٹ اپ ہی جاری رہے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو ہونا چاہیے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اور کچھ ہو نہ ہو یہ بے یقینی اور کنفیوڑن کی فضا ہی سوفیصد یقینی ہے یا پھر موجودہ نگران حکمرانوں کی خواہش کہ اے کاش الیکشن کبھی بھی نہ ہوں۔ جس شد و مد اور دلچسپی سے نوے دن کے لیے آنیوالی نگران حکومت نے پورے اطمینان سے اور ٹِک کر ڈویلپمینٹ پراجیکٹس کیے ہیں اس سے تو لگتا ہے جیسے ان سے زیادہ مطمئن سیاستدان پوری دنیا میں نہیں ہیں ماشاء اللہ قْل شریف جیسے حالات میں پْل شریف کی تعمیر کوئی کم کارنامہ نہیں۔ ان کا جاری و ساری اطمینان بتاتا ہے کہ الیکشن ہوں یا نہ ہوں انہوں نے اپنا فرض پورا کردیا ہے۔
٭…٭…٭