سورۃ العصر

Jan 12, 2024

خواجہ نورالزماں اویسی

ترجمہ’’:زمانہ کی قسم ۔ بیشک ہر انسان ضرور نقصان میں ہے ۔ سوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور انہوں نے ایک دوسرے کو دین حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی ‘‘۔
 امام طبرانی اپنی سند کے ساتھ حضرت عبیداللہ بن حفص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے جب بھی کوئی دو صحابی آپس میں ملتے اور ملاقات کرنے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے دونوںاس سورت کی تلاوت کر کے ایک دوسرے کو سناتے اور پھر سلام کر کے جدا ہو جاتے ۔ ( المعجم الاوسط)
اس سورۃ کی آیت نمبر دو اور تین کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قسم اٹھا کر یہ ارشاد فرمایا کہ آدمی ضرور نقصان میں ہے کیونکہ کہ انسان کی عمر جو اس کا سرمایہ اور اصل پونجی ہے وہ کم ہو رہی ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو اچھے کام کرنے کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو ان تکلیفوں اور مشکلات میں صبر کرنے کی نصیحت کی جو دین کی راہ میں پیش آتی ہیں تو یہ لوگ اللہ تعالی کے فضل سے خسارے میں نہیں ہیں کیونکہ کہ انہوں نے اپنی ساری عمر نیکی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزاری ۔ 
سورۃ فاطر میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وارہیں جو کبھی تباہ نہیں ہو گی ۔ انسان کی زندگی اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور انسان اس سرمائے سے صرف اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری میں گزارے۔
 اگر انسان اپنی زندگی اللہ تعالی کی نافرمانی اور گناہوں میں خرچ کرتا ہے تو اس سے اسے کوئی نفع حاصل نہیں ہو گا۔دوسری بات یہ کہ انسان کی زندگی کا جو حصہ اللہ تعالی کی عبادت اور اس کے احکامات کے مطابق گزارے گا وہ ہی سب سے بہتر ہے ۔  دنیا سے بے رغبتی کرنا اور آخرت کی طلب میں اور اس سے محبت کرنے میں مشغول ہونا انسان کے لیے سعادت کا باعث ہے ۔
اللہ تعالی سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے :’’ اور جو آخرت چاہتا ہے اس کے لیے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی ۔ 

مزیدخبریں