ملک میں سیاست دانوں اور سکیورٹی فورسز کو ہدف بنا کر کی جانیوالی دہشت گردی کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے جس کے پس پردہ ملک کی سلامتی کمزور کرنے اور اسے سیاسی و اقتصادی عدم استحکام سے دوچار کرنے کا مخصوص ایجنڈا کارفرما نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران خیبر پی کے‘ بلوچستان‘ اسلام آباد اور ملک کے دوسرے حصوں میں رونما ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتیں ملک اور عوام کے تحفظ کے ذمہ دار ریاستی اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں جن کے پس پردہ اصل محرکات کا کھوج لگا کر ملک میں امن و امان یقینی بنانے کیلئے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ 8 فروری کے عام انتخابات کی منزل اب بہت قریب آرہی ہے۔ اگر اس دوران دہشت گردی کی وارداتیں تسلسل کے ساتھ جاری رہتی ہیں تو انتخابات موخر کرانے کے خواہاں عناصر اور حلقوں کو اس سے اپنے مقاصد کی تکمیل کا نادر موقع مل سکتا ہے جبکہ ملک کے جمہوری نظام کی بقا اور استحکام کا 8 فروری کے انتخابات پر ہی دارومدار ہے۔
یہ صورتحال بلاشبہ اجتماعی فکرمندی کی متقاضی ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات کو پتھر پر لکیر قرار دینے کے چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابات کے التواء کا تقاضا شروع کر دیا گیا جس کیلئے جواز سرد موسم اور ملک کے بالخصوص دو صوبوں خیبر پی کے اور بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتوں کو بنایا گیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں یہ تک کہہ دیا کہ اگر 8 فروری کے انتخابات کی مہم کے دوران انکی پارٹی کا کوئی ایک بھی کارکن زخمی یا شہید ہوا تو اسکی ذمہ داری پاکستان الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس پر عائد ہوگی۔ انکے اس اعلان کے دو روز بعد ہی انتخابی مہم کیلئے روانہ ہوئے جمعیت علماء اسلام کے قافلے کے قریب ایک پولیس چوکی کو ٹارگٹ کرکے دہشت گردی کی واردات کی گئی۔ خوش قسمتی سے مولانا فضل الرحمان خود اس وقت گھر پر موجود تھے تاہم اس واردات سے جے یو آئی کی جانب سے تاثر یہی دیا گیا کہ اس واردات میں مولانا فضل الرحمان ہی دہشت گردوں کا ٹارگٹ تھے جبکہ پولیس حکام کے بقول اس وارداد میں دہشت گردوں نے پولیس چوکی کو ٹارگٹ کیا تھا۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس واردات کے بعد بھی ٹارگٹڈ دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے ایک امیدوار پر بھی دہشت گرد حملہ ہو چکا ہے جس میں وہ معجزانہ طور پر بچ گئے جبکہ اسلام آباد میں ایک جید دینی سکالر دہشت گردی کی سفاکانہ واردات کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہو گئے۔ اسی طرح بدھ کے روز بھی میرانشاہ اور لکی مروت میں دہشت گردی کی پے در پے وارداتیں ہوئیں جن میں انتخابی امیدوار اور سکیورٹی فورسز کے ارکان ہی دہشت گردوں کا ہدف تھے۔ شمالی وزیرستان کی تحصیل میرانشاہ کے گائوں تپی میں گزشتہ روز نامعلوم افراد کی فائرنگ سے صوبائی اسمبلی کے ایک آزاد امیدوار سمیت تین افراد شہید ہوئے جو حلقہ پی کے 104 میں انتخابی مہم پر نکلے ہوئے تھے اور گھر واپس جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر بے دریغ فائز کھول دیا جس کے نتیجہ میں آزاد امیدوار کلیم اللہ اور اسکے دو ساتھی موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ اسی طرح بلوچستان کے شہر تربت میں گزشتہ روز نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور سابق سینیٹر اسلم پلیدی زخمی ہو گئے۔ وقوعہ کے وقت وہ عیسیٰ قومی پارک میں واک کر رہے تھے جن کے بازو اور ٹانگ پر گولی لگی۔
بدھ کے روز ہی کوہاٹ انڈس ہائی وے پر لاچی ٹول پلازہ کے قریب واقع چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد شہید ہوئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دہشت گردوں نے چیک پوسٹ میں تعینات پولیس اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کی اور جائے وقوعہ پر پولیس کی نفری پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ شہداء کی نماز جنازہ کے بعد آئی جی خیبر پی کے اخترحیات نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کے پی کے پولیس نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں جس کا ثمر لوگوں کو مل رہا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پولیس آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اپنے مشن پر کاربند رہے گی۔
اسی روز لکی مروت میں بھی سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو دہشت گرد ہلاک اور سکیورٹی فورسز کے دو جوان بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ہلاک ہونیوالے دہشت گرد سکیورٹی فورسز کیخلاف دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھے جن سے اسلحہ‘ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان افغانستان کے دورے پر ہیں جن کی عبوری حکمران طالبان کی قیادت سے ملاقاتیں اور مذاکرات جاری ہیں جبکہ پاکستان کے ان دو صوبوں میں دہشت گرد عناصر کھل کھیل رہے ہیں جہاں افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونیوالے انتہاء پسند عناصر ہی دہشت گردی کی وارداتوں میں مصروف ہیں اور ہمارے سکیورٹی اداروں کے پاس یہ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ افغانستان سے پاکستان داخل ہونیوالے دہشت گردوں کو بھارت کی مکمل سرپرستی چاصل ہے جس کی ایجنسی ’’را‘‘ ان دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر تربیت دیکر انہیں پاکستان بھجواتی ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں کابل انتظامیہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت کالعدم ٹی ٹی پی کے ارکان کے پاکستان میں داخلے کا راستہ کھولا گیا تھا جس سے دہشت گردوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور یہاں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ اسی بنیاد پر سول اور عسکری قیادتوں نے قومی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں غیرقانونی مقیم غیرملکی باشندوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا جن میں غالب اکثریت افغان مہاجرین کی ہے اور انہی کی صفوں میں دہشت گرد بھی چھپے ہوئے ہیں۔ چناچہ کابل کی عبوری طالبان حکومت کی جانب سے ہی پاکستان کے اس فیصلے کی مزاحمت کا عندیہ دیا گیا اور اب مولانا فضل الرحمان افغانستان جا کر بطور خاص پاکستان کے اس فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں چنانچہ پاکستان کی جن سیاسی قیادتوں کی بوجوہ آٹھ فروری کے انتخابات موخر کرانے میں دلچسپی ہے‘ بادی النظر میں ملک میں اٹھنے والی دہشت گردی کی تازہ لہر میں انکی سوچ کا بھی عمل دخل ہو سکتا ہے جس کاٹھوس اور جامع تحقیقات کے ذریعے کھوج لگانا ضروری ہے۔
بے شک ہمارے سکیورٹی ادارے ملک کی سرزمین پر دہشت گردی کی جڑیں کاٹنے اور دفاع ملک و قوم کے تقاضے نبھانے میں ہمہ وقت مصروف اور چوکس ہیں اور اس کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے تاہم ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشیں ناکام بنانے کیلئے ہمارے سکیورٹی اداروں کو ہر قسم کے لیپس سے پاک کرکے ازسرنو منظم اور مربوط بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے اصلاحِ احوال کا یہی وقت ہے۔