مبینہ "بندوبست" پر عملدرآمد کا وقت

کسی بھی ملک میں جمہوریت کے قیام اور اس کی نشوونما کے لئے لازمی ہے کہ وہاں کی سیاسی جماعتیں مقامی سطح پر ابھرے کارکنوں کی پالیسی سازی کے عمل میں شرکت کو یقینی بنائیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ ہونہیں پایا۔برطانوی دور کے زمانے سے متعارف ہوئی ’’جمہوریت‘‘ کی بدولت چند خاندان ابھرے جنہیں ہم ’’موروثی سیاستدان‘‘ پکارتے ہیں۔ وہ کرشماتی یا عوام میں مقبول رہ نما کی قیادت میں قائم ہوئی’’سیاسی جماعت‘‘ میں شامل ہوجاتے ہیں۔اس کا ٹکٹ حاصل کرکے اسمبلیوں میں پہنچ جائیں تو ’’عوام کے کام شام‘‘ سرکاری سرپرستی میں کرواتے ہوئے ’’اپنا حلقہ‘‘ مضبوط بنانے کی کاوشوں میں مصروف رہتے ہیں۔اسمبلی کی کارروائی اور خاص طور پر قانون ساز ی کے عمل میں ان میں سے معدودے چند افراد دلچسپی دکھاتے ہیں۔ اسی باعث جب غیر پارلیمانی قوتیں جمہوری دِکھتے بندوبست کو بدلنے کی کوشش کرتی ہیں تو انہیں عوامی سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ہماری تاریخ میں تحریک انصاف کے ساتھ اپریل 2022ء سے جو کچھ ہورہا ہے وہ ’’جمہوری بندوبست‘‘ پر غیر پارلیمانی قوتوں کے کامل کنٹرول کی تازہ ترین مثال ہے۔تحریک انصاف سے قبل نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ اپریل 1993ء  میں غیر پارلیمانی قوتوں نے معاندانہ روش اختیار کرلی تھی۔یہ جماعت مگر غیر پارلیمانی قوتوں سے خفیہ روابط کی بدولت درمیانی راہ تلاش کرتے ہوئے 1997ء اور 2013ء میں اقتدار میں لوٹ آئی۔ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے پر وہ 2008ء کے 2018ء تک کامل اختیارات کے ساتھ برسراقتدار رہی۔
اکتوبر2021ء سے یہ تاثر ابھرنا شروع ہوا کہ عمران حکومت کی ’’سیم پیج‘‘ سے جدائی کے بعد مسلم لیگ (نون) سے ایک بار پھر مقتدر کہلاتی قوتوں کے روابط بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ان رابطوں کا نتیجہ ہمیں اپریل 2022ء میں شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت کی صورت دیکھنے کو ملا۔ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر مذکورہ حکومت نے عوام کو مہنگائی کے سیلاب کے سپرد کردیا۔ناقابل برداشت مہنگائی کے باوجود مگر تحریک انصاف عوا م کو بھرپور مزاحمت کے لئے اکسانہیں پائی۔ عمران خان نے جذباتی تقاریر سے اپنے حامیوں کو ’’انقلاب‘‘ برپا کرنے کو روایتی اور سوشل میڈیا کے جارحانہ استعمال سے بارہا اکسایا۔ سڑکوں پر لیکن وہ ماحول نہیں بن پایا جو 1968ء  اور 1977ء کی حکومت مخالف تحاریک میں ہمارے تمام بڑے شہروں میں چھایا ہوا تھا۔ تحریک انصاف بلکہ 2007ء میں شروع ہوئی ’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ والاکا مزاحمتی ماحول بھی تشکیل نہیں دے پائی۔ اسی باعث بہت شدت سے اب یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانے کا ’’بندوبست‘‘ طے ہوچکا ہے۔خفیہ رابطوں کے ذریعے مقتدر کہلاتی قوتوں اور مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نما ئوں کے مابین مبینہ طورپر جو بندوبست طے ہوا ہے اب اس پر عملددرآمد کا وقت ہے۔ طویل سوچ بچار کے بعد بالآخر بدھ کی رات پاکستان مسلم لیگ (نون) نے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔ ’’اپنے‘‘ لوگوں کا چنائو کرتے ہوئے چند اہم ترین نام نظرانداز کردئے گئے ہیں۔
دانیال عزیز کا نام اس ضمن میں نمایاں ترین رہا۔ نارووال اور شکر گڑھ کی مقامی سیاست کے حوالے سے وہ ا حسن اقبال کے ’’شریک‘‘ ہیں۔ ان کے مابین ٹھنی جنگ میں شریف خاندان احسن اقبال کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ دانیال عزیز بھلادیا گیا ہے جو پا نامہ دستاویزات کی بنیاد پر نواز شریف کو رگیدتی سپریم کورٹ کو 2016/17ء میں مسلسل للکارتا رہا۔ بالآخر اسے ’’توہین عدالت کا مجرم‘‘ٹھہراکر پانچ سال کے لئے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔دانیال کے ساتھ ہوا سلوک انگریزی کا وہ محاورہ یاد دلاتا ہے جو اصرار کرتا ہے کہ Kingیعنی بادشاہ کے کوئی Kinیعنی رشتے دار نہیں ہوتے۔ وہ کسی کابھی ہمارے محاورے کے مطابق ’’سگا‘‘ نہیں ہوتا۔ ’’قربانی دینے والے‘‘ بوقت ضرورت شطرنج کے پیادوں کی طرح ’’مروا‘‘ دئے جاتے ہیں۔اس کے سوا میں دانیال عزیز کے معاملے میں مزید کچھ لکھ نہیں سکتا۔ چودھری انور عزیز مرحوم کی وجہ سے وہ میرے خاندان کے ایک فرد کی طرح ہیں اور میں اخباری کالم میں ’’غیر جانبداری‘‘ کا بھرم برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔
دانیال عزیز کے ساتھ ہوئے سلوک کو نظرانداز کرتے ہوئے بھی لیکن ٹیکسلا کے بارے میں مسلم (نون)کی جانب سے لئے فیصلے سے بہت حیران ہوا ہوں۔قومی اسمبلی کی نشست کا ٹکٹ وہاں عمران حکومت کے وزیر غلام سرور خان کے فرزند کو ملا ہے۔ غلام سرور خان نے عمران حکومت کے دوران بجلی،گیس ا ور ہوا بازی وغیرہ کا وزیر ہوتے ہوئے وطن عزیز کے لئے مختلف نوع بحران پیدا کئے تھے۔نہایت رعونت سے اگرچہ اپنے کئے کا دفاع کرتے رہے۔ عمران خان بھی موصوف کی مسلسل پشت پناہی فرماتے رہے۔ان کی حکومت پر لیکن جب کڑا وقت آیا تو موصوف ’’لوٹے‘‘ ہوگئے۔عمران خان سے جدائی نے مگر انہیں نواز شریف کے دربار میں وقار فراہم کردیا۔ ان کے فرزند اب مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہونے کی کوشش کریں گے۔
غلام سرور خان سے میری سرسری شناسائی ہے۔ موصوف سے قربت یا دشمنی ممکن ہی نہیں۔ بطور صحافی مگر ٹیکسلا کے عوامی مزاج سے بخوبی واقف ہوں۔ میرا مشاہدہ مصر ہے کہ غلام سرور خان کا تحریک انصاف سے وفا نبھانے میں ناکام رہنا ٹیکسلا کے عوام کی بھاری بھر کم تعداد کو پسند نہیں آیا۔ وہاں کے لوگ بیرسٹر عقیل نامی ایک مسلم لیگی کارکن کے لئے مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ کی توقع باندھے ہوئے تھے۔ اس علاقے سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے شریف خاندان کے 1985ء سے 2018ء تک مسلسل قریب رہے چودھری نثار علی خان بھی ’’آزاد‘‘ حیثیت میں میدان میں اترے ہیں۔ غلام سرور خان کے فرزند کو ملا ٹکٹ مسلم لیگ (نون) کے بے تحاشہ مقامی کارکنوں کو شدت سے اکسائے گا کہ وہ طیش میں آکر اپنا ووٹ چودھری صاحب کو ٹرانسفرکردیں۔
میں یہ دعویٰ تسلیم کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں ہوں کہ جاتی امرا میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو ٹیکسلا کے زمینی حقائق کا علم نہیں۔ غلام سرور خان کی بے وفائی کو سراہنا مگر ان کی مجبوری تھی۔ اس کے علاوہ انہیں یہ اعتماد بھی ہے کہ خفیہ رابطوں کے ذریعے جو ’’بندوبست‘‘ طے ہوا ہے وہ فروری 2024ء کے انتخاب کو محض ایک ’’رسم‘‘ کی صورت فراہم کرے گا۔ مسلم لیگ (نون) کا ٹکٹ ہی لوگوں کو قومی اسمبلی میں پہنچانے کے لئے کافی ہوگا۔ تحریک انصاف کی طرح اسے بھی اپنے ذہن میں سوچنے والے سیاسی کارکن نہیں بلکہ ’’کھمبے‘‘ درکار ہیں۔بادشاہوں کے دربار میں سرجھکائے مصاحبین جو محض ’’باادب ہوشیار‘‘ کی پکارسننے کے عادی ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...