راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ+ ریڈیو نیوز+ ثناء نیوز) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا ہے کہ ہم کسی کے حاکم ہیں اور نہ ہی کسی ادارے سے بڑے ہونے کا دعویدار‘ اگر انصاف فراہم نہ کیا تو کندھوں پر اٹھانے والے عوام سڑکوں پر گھسیٹیں گے‘ انتظامیہ یا کسی حکم کو معطل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت ان سے بالاتر ہے‘ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کیلئے کام کریں گے‘ عدلیہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ وہ راولپنڈی کچہری میں اپنے نام سے منسوب بلاک کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی سے عدلیہ کی تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کی سمت تبدیل ہو گئی ہے جو اب شاہراہ دستور کی بجائے دستور کے اندر جاری رکھی جائے گی۔ آئین کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ اور ہر ہاتھ کو روکنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ کے کسی فیصلے کا مقصد کسی پر بالادستی یا رعب جمانا نہیں بلکہ عدلیہ کی حیثیت اس چوکیدار کی ہے جو مالک کے گھر اور اس گھر کے ہر فرد کی طرف اٹھنے والے ہاتھ کو روکے خواہ اس کیلئے اسے اپنے ہی ہاتھ پیر تڑوانا پڑیں۔ یہی چوکیداری ہی عدلیہ کی عبادت اور روح ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد بھی اطمینان سے بیٹھ جانے کی غلطی کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیا۔ آج ہم کشکول لے کر پھر رہے ہیں ہمارے اوپر ناکام ریاست اور دہشت گرد ریاست ہونے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کسی پر حاکمیت قائم کرنے کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ انتظامیہ اور مقننہ کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ ہم نے گذشتہ دو سال میں مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی توفیق اور مدد سے ہی جدوجہد جاری رکھی لیکن مجھ جیسے چند اصحاب کی کرسیوں پر واپسی کو منزل نہیں سمجھنا چاہیے۔ وکلاء تحریک کی کامیابی اچھے اعمال کی کامیابی ہوئی ہے اور ساری دنیا نے یہ معجزہ دیکھ لیا کہ ایسے آمر کو جس کے سامنے کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی‘ اپنا اٹھایا ہوا قدم جوتے سمیت منہ میں لینا پڑا۔ 9 مارچ سے پہلے دنیا میں جسٹس افتخار چودھری یا میرا نام کتنے لوگ جانتے تھے لیکن صحیح قدم کی وجہ سے لوگوں نے ساتھ دیا اگر ہم نے سچائی اور دیانتداری کا ساتھ چھوڑ دیا تو لوگ ہماری تختیاں جلا کر ہمیں سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔