خواب سارے ہی آہ و فغاں بن گئے
خوں دینے والے‘ خوار و زبوں حال ہیں
چُوری کھانے والوں کے کارواں بن گئے
جنکی شکل‘ کرتوت‘ نام سے بیزار تھی دنیا
دنیا داروں کے دیوی‘ دیوتا‘ بھگواں بن گئے
جہاں جہاں سے بھی گزرے سبز قدم لوگ
وہاں وہاں ہی داغ‘ دھبے‘ نشاں بن گئے
لاغر تھے جو کبھی اتنے کہ چلنے سے قاصر
کس کس کا لہو پی کے‘ جواں بن گئے؟
وہ جو کبھی ہوا کرتے تھے غبارِ راہ محسن
ستاروں سے آگے‘ ان کے جہاں بن گئے