بنگلہ دیش‘ کشمیر اور ہم؟

ایک خبر کےمطابق بنگلہ دیش کی حکومت نے بھارت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے اس بیان پرسخت ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اپنے اندرونی مسائل میں الجھا ہوا ہے اس لئے کشمیر کو فراموش کر دے بنگلہ دیش نے من موہن سنگھ کے اس بیان کو غیرذمہ دارانہ قرار دیا ہے کہ اس سے خطہ میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ من موہن سنگھ کے اس بیان پر سب سے فوری ردعمل پاکستان کی طرف سے آنا چاہئے تھا ہم نے ایسے چپ سادھ رکھی ہے جیسے ہم نے اندرونی طور پر بڑی طاقتوں اور بھارت کو یقین دلا رکھا ہے کہ ہم کشمیر پر اسی طرح کی خاموشی اختیار کر کے اس کو پس منظر میں دھکیل دینگے‘ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قائداعظم نے محض ایک جذباتی نعرہ کے طور پر نہیں کہا تھا‘ کشمیر کے پہاڑ، دریا پاکستان کے معاشی اور دفاعی استحکام کا منبع ہے قطع نظر اس حقیقت کے کشمیر اپنی 80 فیصد مسلمان آبادی پاکستان کےساتھ اسکے جغرافیائی، مواصلاتی اور معاشرتی صدیوں پرانے رشتوں کے اعتبار سے تقسیم ہند کے اصولوں کےمطابق اسے پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔ ہمارے معاشی اور دفاعی استحکام کا انحصار کشمیر پر ہے۔
بھارت نے پاکستان کو اس معاشی اور دفاعی استحکام کے منبع سے محروم کرنے کےلئے کشمیر پر جارحیت کی تھی اور اپنی فوجوں کے ذریعے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ کشمیر کے لوگوں نے اس جارحیت کا مقابلہ کیا 18 ماہ تک جنگ جاری رہی‘ آزاد کشمیر کا خطہ اور پھر گلگت بلتستان کے لوگوں نے بھی جنگ کر کے اسے آزاد کرایا تھا۔ اب یہ 32 ہزار مربع میل کا خطہ بھارت کے فوجی چنگل سے آزاد ہے بھارت کے پہلے وزیراعظم کشمیری نژاد جواہر لال نہرو نے کشمیر پر فوج کشی بھی کی اور سلامتی کونسل میں جا کر دہائی دی کہ پاکستان نے کشمیر پر جارحیت کی ہے۔
سلامتی کونسل نے اپنی دو قراردادوں 15 اگست 1948ءاور 5 جنوری 1949ءکے ذریعہ یہ فیصلہ دیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام رائے شماری کے ذریعہ کرینگے‘ جواہر لال نہرو نے اپنی پارلیمنٹ میں اور سری نگر کے لال چوک میں تقریر کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دینگے خواہ انکے فیصلہ سے ہمیں دکھ ہو گا لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں کیا گیا‘ کشمیری عوام نے اپنے حق خودارادیت کےلئے جدوجہد جاری رکھی ہے۔ اس میں انہوں نے قربانیوں کے انبار لگائے ہیں دو جنگیں بھارت کےساتھ ہو چکی ہیں بھارت کی ہٹ دھرمی کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں کر سکی اس مقصد کےلئے کبھی گرم اور کبھی سرد جنگ بھارت سے جاری ہے ۔
کشمیر کے مسئلہ پر امریکی صدر بارک اوبامہ نے بھی کئی بار اظہار خیال کیا برطانوی حکومت نے بھی وقتاً فوقتاً کشمیر کے مسئلہ کے حل کےلئے توجہ دلائی ‘یورپی یونین نے اپنے وفود کشمیر بھیجے جنہوں نے آکر یہ بیانات دیئے کہ کشمیر ایک خوبصورت جیل کی مانند ہے جہاں کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں مل رہا اسلامی ممالک کی او آئی سی ہر سال بھارت پر زور دیتی ہے کہ بھارت کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعہ حل کرے‘ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھارتی پارلیمنٹ کے ممبروں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل دو تین وفود بھیجے کہ وہاں کے حریت پسندوں کو لولی پاپ دےکر آمادہ کیا جا سکے کہ وہ کنٹرول لائن کو تسلیم کر لیں انہیں اندرونی خودمختاری کے نام پر آئینی، سیاسی اور انتظامی مراعات دی جائیں گی۔
کشمیری حریت پسندوں نے ان وفود سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا ایک وفد کے لیڈر چپکے سے علی شاہ گیلانی کے گھر چلے گئے تھے غرض پاکستان سے کہیں زیادہ کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کے مو¿قف پر قائم ہیں اس میں آج دس دس لاکھ کے مظاہرے لال چوک میں کئے جاتے رہے‘ ان مظاہروں کی رہنمائی نوجوان نسل کرتی ہے‘ اس کروٹ میں کشمیریوں نے 117 افراد کی قربانی بھی دی تھی بھارتی وزیراعظم کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر پاکستان کو غیرذمہ دارانہ مشورہ دیتے ہیں کہ کشمیر کو بھول جائے خود کشمیری اپنی جدوجہد سے بھارتی قیادت کو یاد دلا رہے ہیں کہ انہیں حق خودارادیت دیا جائے‘ پاکستان بلاشبہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے بصیرت و دوراندیشی سے محروم فیصلے اور امریکہ کی ٹھونسی ہوئی دہشت گردی کے باعث خون ریزی کے تھپیڑے کھا رہا ہے اسکے نتیجہ میں معاشی بحران کا بھی شکار ہے لیکن پاکستان کے غیرت مند اور باشعور عوام پورے حوصلہ اور استقامت کےساتھ ان دگرگوں حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
وہ بڑے مہربانوں کی سازشوں، ہمسایوں کی پھیلائی دہشت گردی کے سالوں میں پورے عزم اور حوصلہ کےساتھ پاﺅں پر کھڑے ہیں یہ نہ اس سے پہلے آزمائشوں سے گھبرائے ہیں اور نہ اب گھبرائیں گے کشمیر تو انکی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے‘ اسے دشمن کے قبضہ سے ضرور چھڑائیں گے۔ بھارتی وزیراعظم اندازہ کر لیں کہ انکے کشمیر کو بھول جانے کے غیرذمہ دارانہ بیان پر بنگلہ دیش بول اٹھا ہے تو پاکستانی اور کشمیری عوام اسے کیسے بھول جائینگے۔ اسلامی ممالک بھی کشمیر کو نہیں بھولے پاکستان کے حکمرانوں کے اس بیان پر خاموشی افسوسناک ہے عوام نہیں بھولیں گے۔

ای پیپر دی نیشن