تخلیق و تشکیل پاکستان کے بارے میں بھارت کے ہندو لیڈروں کی بدنیتی تو اس وقت ہی ظاہر ہو گئی تھی جب 23 مارچ 1940ءکو منٹو پارک میں برصغیر کے مسلمانوں نے ”قراردادِ لاہور“ منظور کی تھی اور دو قومی نظریے کی اساس پر مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ اس قرارداد کو ہندو پریس نے ”قرارداد پاکستان“ کا نام دیا اور پھر اگلے چھ سات برسوں میں اسکی اتنی مخالفت کی گئی کہ علیحدہ وطن کا حصول مسلمانوں کا جزوِ ایمان بن گیا تاہم حقیقت یہ ہے کہ آل انڈیا کانگریس کے ہندو لیڈروں اور بعد میں بھارت کی تمام غیر مسلم سیاسی جماعتوں نے اکھنڈ بھارت کے خواب سے کبھی دستبرداری اختیار نہیں کی اور پاکستان کے وجود کو کبھی قبول نہیں کیا بلکہ جب پاکستان معرض وجود میں لایا جا رہا تھا تو بھارت میں اس کو متزلزل کرنے اور پھر بھارت میں ضم ہو جانے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے تھے۔ ان میں ایک بنیادی منصوبہ خطِ تقسیم کے نقشے میں تبدیلی تھی، چنانچہ مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے چند علاقے جن میں ضلع گورداسپور سب سے اہم ہے، پہلے پاکستان میں شامل تھا لیکن اعلان آزادی کے بعد جب تقسیم کا منصوبہ سامنے لایا گیا تو یہ اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل کر دیئے گئے۔ تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اس سازش میں شریک تھا اور مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کو کشمیر میں دراندازی کا راستہ دستیاب ہو اور ریاست کے غیر قانونی الحاق کی راہ ہموار کر دی جائے۔ مسئلہ کشمیر اس غلط خطِ تقسیم ہی کا نتیجہ ہے اور یہ پاکستان کےخلاف بھارت کی ازلی دشمنی کا بنیادی مآخذ ہے۔
1947ءمیں متحدہ پنجاب میں محکمہ آبپاشی کی باگ ڈور ہندو انجینئروں کے ہاتھ میں تھی اور وہ پنجاب کے دوامی دریاﺅں ستلج ، بیاس، راوی، چناب، جہلم، سندھ کے منابع سے جو کشمیر کے بالائی علاقوں میں تھے واقف تھے۔ پنجاب کے نہری نظام، ڈیمز، بیراجوں اور ہیڈ ورکسوں کی تعمیر میں بھی ان ہندو انجینئروں نے ہی گرانقدر حصہ لیا تھا۔ تقسیم شدہ پنجاب کا جو حصہ پاکستان کو دیا گیا تھا، اس کا نظام آبپاشی کشمیر سے آنےوالے دریاﺅں اور ہندوستان سے آنےوالی نہروں پر منحصر تھا۔ پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے ان ہندو انجینئروں نے ہی پنڈت نہرو کو نہری نظام کا حربہ استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اب یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت کے جن مذموم مقاصد کے تحت تین بڑی جنگیں بین الاقوامی سرحدوں پر لڑی گئیں، وہ حاصل نہیں ہو سکے‘ وہ نہری پانی بند کرنے اور کشمیر میں دریاﺅں پر ڈیم بنانے سے حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے اور وہ پاکستان کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا۔
واضح رہے کہ بھارت نے اپنے اس مذموم منصوبے پر آزادی کے فوراً بعد عمل شروع کر دیا تھا اور سب سے پہلے مادھوپور ہیڈ ورکس سے نکلنے والی نہر اپر باری دوآب کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔ اس نہر کی روانی کو جاری رکھنے کیلئے سیاست دانوں نے بھارت کی شرائط پر معاہدہ کیا اور بھارت کے تیور دیکھ کر دریائے چناب سے نکلنے والی نہر کا پانی بمبانوالہ راوی بیدیاں لنک کے ذریعے گنڈا سنگھ والا تک پہنچانے کا پراجیکٹ تعمیر کیا۔ اس مقصد کےلئے دریائے راوی کے نیچے سے پانی کو سائیفن بنا کر گزارا گیا۔ صدر ایوب خان کے آمرانہ دور میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا معاہدہ عالمی بنک کی نگرانی میں طے کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت دریائے بیاس، ستلج اور راوی کے پانی کے دائمی حقوق بھارت کو اور جہلم، چناب اور سندھ کے حقوق پاکستان کو دیئے گئے۔
اس معاہدے میں پاکستان کے تین دریاﺅں کو آپس میں ملانے کیلئے رابطہ نہروں اور منگلا، کالا باغ، تربیلا اور دیگر ڈیمز بنانے کے منصوبوں کی تجاویز بھی شامل کی گئی تھیں چنانچہ متعدد رابطہ نہروں کے علاوہ منگلا اور تربیلا ڈیم تو تعمیر کر لئے گئے لیکن ایک اہم ڈیم موسوم کالا باغ کی تعمیر اب تک سیاست کی نذر ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے ملک اس وقت اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ بجلی کا بحران شدید صورت اختیار کر گیا ہے۔ صنعت کا پہیہ رکا ہوا ہے اور بیروزگاری و کساد بازاری روز افزوں ہے۔
دوسری طرف بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اسے احساس ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور اب وہ جنگی عمل سے پاکستان کو 1971ءکی طرح شکست سے دوچار نہیں کر سکتا، چنانچہ اس نے ”انڈس واٹر ٹریٹی“ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے تین دریاﺅں چناب، جہلم اور سندھ پر ساٹھ ستر سے زیادہ ڈیمز بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور بنیادی مقصد پاکستان کو دریائی پانی سے محروم کرنا، اس ملک کی زرعی اراضی کو بنجر کرنا اور عوام کو پاکستان بنانے کی سزا دینا ہے۔
بھارت کے اس منفی رویے پر عالمی سطح پر بھی اب اعتراض کیا جانے لگا ہے چنانچہ ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان برسکوئے نے پانی کی تقسیم میں ہندوستان کے غیر منصفانہ رویے کو خاص طور پر نشان زدہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”انڈیا کو ”انڈس واٹر ٹریٹی“ کی شقوں کی وضاحت صرف پاکستان کو سزا دینے کے مقاصد کے تحت اور اپنے مفاد کیلئے نہیں کرنی چاہئے“۔
پروفیسر جان برسکوئے کا اشارہ انڈس واٹر ٹریٹی کے اس ضمیمے کی طرف ہے جس میں بھارت کو پاکستان کے حصے کے دریاﺅں میں سے 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی 21 جون تا 31 اگست کے سیلابی دور میں جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن بھارت انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب پر بنائے گئے بگلیہار ڈیم میں دسمبر تا فروری کے مہینوں میں ذخیرہ کرتا ہے جب دریا میں روانی کم ہو جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 3.6 ملین ایکڑ فیٹ کا ذخیرہ اس دور میں پاکستان کی طرف بہنے والے دریاﺅں کی کل مقدار سے بھی زیادہ ہے جس کا صریح نتیجہ یہ ہے کہ ربیع کی فصل کیلئے بھارت پاکستان کو دریائی پانی سے محروم کر سکتا ہے اور کر بھی رہا ہے۔
انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس کا معاہدہ) کے تحت بھارت کو دریائے جہلم پر ڈیم بنانے کی اجازت نہیں لیکن وہ کشن گنگا پر (جو پاکستان میں دریائے نیلم سے موسوم ہوتا ہے) بجلی گھر بنانے کی آڑ میں ایک سرنگ کے ذریعے پانی ولّر بیراج تک لے جا رہا ہے جو دریائے جہلم پر واقع ہے اور دریائے کشن گنگا پر بنایا جانےوالا ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن بھی اس آبی سرنگ کے دوسرے سرے پر تعمیر کیا جا رہا ہے جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کا یہ معاندانہ رویہ پاکستان کے ساتھ ہی نہیں جس کے تین دریاﺅں کے منابع پر ہندوستان کا قبضہ ہے بلکہ یہ ملک نیپال کے آبی وسائل میں بھی دراندازی کر رہا ہے۔ ایک خبر کےمطابق نیپال اپنے دریاﺅں پر ڈیم بناتا ہے تو بھارتی افواج انکے انہدام میں تاخیر نہیں کرتیں کیونکہ نیپال کے یہ ڈیم بھارت کی طرف آنےوالے دریائی پانی کیلئے رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔
اپنے پڑوسی ملکوں سے کئے گئے معاہدوں کی عدم تعمیل اور انکی شقوں کی اپنے مفادات کے مطابق تشریح، تقسیم اور تعمیل بھارت کی فطرت ہے۔ معاہدہ کشمیر جو اقوام متحدہ میں طے پایا اور انڈس واٹر ٹریٹی اسکی دو کلاسیکی مثالیں ہیں لیکن ہمیں افسوس وطن عزیز کے سیاست دانوں پر ہوتا ہے جو کالا باغ ڈیم جیسے کثیر المقاصد تعمیری منصوبے کی تعمیر میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور پاکستان کو تباہی سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔ بجلی کے بحران میں ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے لیکن ان اندھیروں کو دور کرنے کا کوئی حل پیش نہیں کیا جاتا بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ملک کے میر جعفروں اور میر صادقوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بھاری رقوم لے کر بھارت کی نذر کر دیا ہے اور انکی مخالفت اب بھی جاری ہے جبکہ بھارت نے پاکستان پر ”واٹر بم“ چلا دیا ہے۔
1947ءمیں متحدہ پنجاب میں محکمہ آبپاشی کی باگ ڈور ہندو انجینئروں کے ہاتھ میں تھی اور وہ پنجاب کے دوامی دریاﺅں ستلج ، بیاس، راوی، چناب، جہلم، سندھ کے منابع سے جو کشمیر کے بالائی علاقوں میں تھے واقف تھے۔ پنجاب کے نہری نظام، ڈیمز، بیراجوں اور ہیڈ ورکسوں کی تعمیر میں بھی ان ہندو انجینئروں نے ہی گرانقدر حصہ لیا تھا۔ تقسیم شدہ پنجاب کا جو حصہ پاکستان کو دیا گیا تھا، اس کا نظام آبپاشی کشمیر سے آنےوالے دریاﺅں اور ہندوستان سے آنےوالی نہروں پر منحصر تھا۔ پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے ان ہندو انجینئروں نے ہی پنڈت نہرو کو نہری نظام کا حربہ استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اب یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت کے جن مذموم مقاصد کے تحت تین بڑی جنگیں بین الاقوامی سرحدوں پر لڑی گئیں، وہ حاصل نہیں ہو سکے‘ وہ نہری پانی بند کرنے اور کشمیر میں دریاﺅں پر ڈیم بنانے سے حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے اور وہ پاکستان کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہا۔
واضح رہے کہ بھارت نے اپنے اس مذموم منصوبے پر آزادی کے فوراً بعد عمل شروع کر دیا تھا اور سب سے پہلے مادھوپور ہیڈ ورکس سے نکلنے والی نہر اپر باری دوآب کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔ اس نہر کی روانی کو جاری رکھنے کیلئے سیاست دانوں نے بھارت کی شرائط پر معاہدہ کیا اور بھارت کے تیور دیکھ کر دریائے چناب سے نکلنے والی نہر کا پانی بمبانوالہ راوی بیدیاں لنک کے ذریعے گنڈا سنگھ والا تک پہنچانے کا پراجیکٹ تعمیر کیا۔ اس مقصد کےلئے دریائے راوی کے نیچے سے پانی کو سائیفن بنا کر گزارا گیا۔ صدر ایوب خان کے آمرانہ دور میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا معاہدہ عالمی بنک کی نگرانی میں طے کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت دریائے بیاس، ستلج اور راوی کے پانی کے دائمی حقوق بھارت کو اور جہلم، چناب اور سندھ کے حقوق پاکستان کو دیئے گئے۔
اس معاہدے میں پاکستان کے تین دریاﺅں کو آپس میں ملانے کیلئے رابطہ نہروں اور منگلا، کالا باغ، تربیلا اور دیگر ڈیمز بنانے کے منصوبوں کی تجاویز بھی شامل کی گئی تھیں چنانچہ متعدد رابطہ نہروں کے علاوہ منگلا اور تربیلا ڈیم تو تعمیر کر لئے گئے لیکن ایک اہم ڈیم موسوم کالا باغ کی تعمیر اب تک سیاست کی نذر ہو رہی ہے‘ جس کی وجہ سے ملک اس وقت اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ بجلی کا بحران شدید صورت اختیار کر گیا ہے۔ صنعت کا پہیہ رکا ہوا ہے اور بیروزگاری و کساد بازاری روز افزوں ہے۔
دوسری طرف بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اسے احساس ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور اب وہ جنگی عمل سے پاکستان کو 1971ءکی طرح شکست سے دوچار نہیں کر سکتا، چنانچہ اس نے ”انڈس واٹر ٹریٹی“ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے تین دریاﺅں چناب، جہلم اور سندھ پر ساٹھ ستر سے زیادہ ڈیمز بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور بنیادی مقصد پاکستان کو دریائی پانی سے محروم کرنا، اس ملک کی زرعی اراضی کو بنجر کرنا اور عوام کو پاکستان بنانے کی سزا دینا ہے۔
بھارت کے اس منفی رویے پر عالمی سطح پر بھی اب اعتراض کیا جانے لگا ہے چنانچہ ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جان برسکوئے نے پانی کی تقسیم میں ہندوستان کے غیر منصفانہ رویے کو خاص طور پر نشان زدہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”انڈیا کو ”انڈس واٹر ٹریٹی“ کی شقوں کی وضاحت صرف پاکستان کو سزا دینے کے مقاصد کے تحت اور اپنے مفاد کیلئے نہیں کرنی چاہئے“۔
پروفیسر جان برسکوئے کا اشارہ انڈس واٹر ٹریٹی کے اس ضمیمے کی طرف ہے جس میں بھارت کو پاکستان کے حصے کے دریاﺅں میں سے 3.6 ملین ایکڑ فٹ پانی 21 جون تا 31 اگست کے سیلابی دور میں جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن بھارت انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب پر بنائے گئے بگلیہار ڈیم میں دسمبر تا فروری کے مہینوں میں ذخیرہ کرتا ہے جب دریا میں روانی کم ہو جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ 3.6 ملین ایکڑ فیٹ کا ذخیرہ اس دور میں پاکستان کی طرف بہنے والے دریاﺅں کی کل مقدار سے بھی زیادہ ہے جس کا صریح نتیجہ یہ ہے کہ ربیع کی فصل کیلئے بھارت پاکستان کو دریائی پانی سے محروم کر سکتا ہے اور کر بھی رہا ہے۔
انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس کا معاہدہ) کے تحت بھارت کو دریائے جہلم پر ڈیم بنانے کی اجازت نہیں لیکن وہ کشن گنگا پر (جو پاکستان میں دریائے نیلم سے موسوم ہوتا ہے) بجلی گھر بنانے کی آڑ میں ایک سرنگ کے ذریعے پانی ولّر بیراج تک لے جا رہا ہے جو دریائے جہلم پر واقع ہے اور دریائے کشن گنگا پر بنایا جانےوالا ہائیڈرو الیکٹرک سٹیشن بھی اس آبی سرنگ کے دوسرے سرے پر تعمیر کیا جا رہا ہے جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کا یہ معاندانہ رویہ پاکستان کے ساتھ ہی نہیں جس کے تین دریاﺅں کے منابع پر ہندوستان کا قبضہ ہے بلکہ یہ ملک نیپال کے آبی وسائل میں بھی دراندازی کر رہا ہے۔ ایک خبر کےمطابق نیپال اپنے دریاﺅں پر ڈیم بناتا ہے تو بھارتی افواج انکے انہدام میں تاخیر نہیں کرتیں کیونکہ نیپال کے یہ ڈیم بھارت کی طرف آنےوالے دریائی پانی کیلئے رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔
اپنے پڑوسی ملکوں سے کئے گئے معاہدوں کی عدم تعمیل اور انکی شقوں کی اپنے مفادات کے مطابق تشریح، تقسیم اور تعمیل بھارت کی فطرت ہے۔ معاہدہ کشمیر جو اقوام متحدہ میں طے پایا اور انڈس واٹر ٹریٹی اسکی دو کلاسیکی مثالیں ہیں لیکن ہمیں افسوس وطن عزیز کے سیاست دانوں پر ہوتا ہے جو کالا باغ ڈیم جیسے کثیر المقاصد تعمیری منصوبے کی تعمیر میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور پاکستان کو تباہی سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔ بجلی کے بحران میں ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے لیکن ان اندھیروں کو دور کرنے کا کوئی حل پیش نہیں کیا جاتا بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ملک کے میر جعفروں اور میر صادقوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بھاری رقوم لے کر بھارت کی نذر کر دیا ہے اور انکی مخالفت اب بھی جاری ہے جبکہ بھارت نے پاکستان پر ”واٹر بم“ چلا دیا ہے۔